• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاں گردی کا سودا ہمیشہ سے ہی من میں سمایا ہوا تھا اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ یہ معاملہ صرف ایک مشغلے کے طور پر ہی نہیں قائم رکھا بلکہ اس حوالے سے سنجیدہ نوعیت کی سرگرمیاں زیست کا محور قرار پاگئیں اور زمانہ طالب علمی سے ہی دیگر ممالک کی سیاحت کا موقع نصیب ہونے لگا ہاتھ میں قلم سنبھالا تو موضوع سخن عالمی حالات کو قرار دیا مگر گفتگو ہمیشہ ایسے مباحث پر کی جن کا تعلق وطن عزیز سے ضرور نکلتا ہے۔
وطن عزیز کے معاملات کا مطالعہ کرنے سے لے کر دنیا بھر کے مسائل کے حوالے سے جائزہ لیا تو اس حقیقت سے پالا پڑا کہ لہو رنگ بستیاں مسلمانوں کی جا بجا آبادکی جار ہی ہیں اوریہ معاملہ دو ایک عشروں پر محیط ہےبلکہ یہ ڈرامہ ہے کہ تھمنے کا نہیں لے رہا اور اس کی وجوہات بھی با لکل واضح ہیں کہ وہ معاشرہ کبھی پنپ ہی نہیں سکتا جہاںمذہب کے نام پر آمریت مسلط ہو دین کو بنیاد قرار دے کر تحقیق کی راہیں مسدود کی جاتی ہوں۔ اختلاف رائے موت کی وادی کی کنجی بن سکتا ہو اور مذہب کی اصل روح صرف عوام میں ہی نہیں بلکہ خواص میں بھی مرچکی ہو،یا زخموں سے چور چور ہو،ایسی صورت میں صورت کے بگڑنے کے سوا اور کیا ممکن ہے۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں مذہب کو معاشرتی زندگی پر اثر انداز نہ ہونے دیا جائے وہاںذہنوں میں اضطراب پیدا ہوتا ہے میری مراد مغرب اور اس کی گو دمیں پرورش پانے والی تہذیب و تمدن سے ہے۔
مغرب کے سفر اختیار کئے اور ہر بار یہ مشاہدہ کیا کہ ’’ بار‘‘ جانے کی آزادی سے لیکر ہر قسم کی آزادی کے حصول کے باوجود اہل مغرب ایک بے چینی میں مبتلا ہیںحالانکہ وہاں اظہاررائے کی آزادی ہے معاشی پسماندگی بھی موجود نہیں ہے،ضروریات زندگی کی فراہمی میں ریاست کا کردار قابل ستائش ہے جب ہر معاملےمیں مکمل آزادی ہے (جو کہ ہونی نہیں چاہئے) پھر بھی سب سے زیادہ خود کشیاں ہورہی ہیں جو ذہنی امراض کی نشاندہی کرتا ہے ایسے واقعات کیوں پیش آجاتے ہیں کہ اچانک کوئی فرد بندوق تھامے بغیر کسی وجہ یا نظریئے کے معصوم انسانوں کی جانوں کے درپے ہو جاتا ہے جب مادی وسائل کی فراوانی ہو تو تلاش کس بات کی۔انسانی وجود اپنے وجود کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور جب اس کو مذہب یا وطنیت کے نام پر کھو بیٹھتا ہے تو بے قرار ہوجاتا ہے۔ جہاں مذہب سے وابستگی سماجی زندگی میں اہم ترین حقیقتوں میں سے ایک ہے وہاں بھی بے قراری ہے جہاںدنیاوی آسائشیں موجود ہیں وہاں بھی بے قراری ہی بے قراری ہے پھر اس بے قرار ی کی وجہ کیا ہے۔
آج کی تحریر کی تحریک مولانا جلال الدین رومی کے ان اشعار کے دفعتاً سامنے آنے کے سبب سے ہوئی کہ
دی شیخ باچراغ ہمی گشت گردشہر
کزدام، دولمولم وانسانم آرزوست
زیں حمر ہا ں ست عناصر ولم گرفت
شیر خدا رستم ودستانم آرزوست
گفتم کے یافت می شود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اندھیری رات اور ایک درویش سن رسیدہ ہاتھ میں مشعل لئےکوچہ بازار کی خاک چھانتا پھرتا ہے جیسے اس کی نگاہ کسی گمشدہ کی تلاش میں ہے میں نے کہا حضرت کس چیز کی تلاش ہے ؟ فرمانے لگے ان درندوں اور چوپایوں کی بستی میں رہتے رہتے طبیعت عاجز آگئی ہے اب اس وسیع کائنات میں کسی انسان کی تلاش میں نکلا ہوں ایک ایسا نوجوان جس کی مردانگی اور شخصیت روح کو تسکین اور بالیدگی عطا کر سکے، میں نے کہا آپ کس دھوکے میں ہیںیہ تو عنقاکی تلاش ہے اس کے پیچھے اپنے آپ کو کیوں مشقت میں ڈالتے ہو میں نے اس راہ میں در در کی خاک چھانی ہے دشت و صحرا آبادی وویرانہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں میرے قدم نہ پہنچے ہوں مگر اس کی حقیقت تو کیا پرچھائی بھی نظر نہ آئی۔ درویش نے کہا مجھے تو اس شے کی تلاش وجستجو زیادہ محبوب ہے جس کا وجود نادر اور جس کا حصول آسان نہ ہو ‘‘جب تک اس نادر شے کو عام دستیاب اور عنقا کو جگہ جگہ نہیں کیا جائے گا اس وقت یہ ممکن نہیں کہ افراد میں اضطراب معدوم کیا جاسکے، اضطراب کو معدوم کرنے کی غرض سے اہل مذہب کے صاحبان نظر اور مادی ایجادات کے حامل اقوام کے نمائندوں کو ساتھ بیٹھنا ہوگا کیونکہ ہم گزشتہ اور موجودہ صدی میں کٹر مذہبی، خالص مادی یا وطنی ریاستوں ان کے معاملات کو چلانے کیلئے حکومتوں اور ان کے نتائج کے طور پر مختلف تہذیبوں کا نظارہ کر چکے ہیںاور کر رہے ہیںاگر ان تمام نظریات، خصوصیات کے اجتماع پر توجہ دی جائے تو مولانا رومی کے محبوب جگہ جگہ ہونگے۔ ورنہ اہل مذہب ہو یا وطنیت کے حامل افراد انسان کے اضطراب کا بڑھنا اب مقدر ہی ہے۔

.
تازہ ترین