• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوز لیکس ، رپورٹ کی تاخیر پر اپوزیشن جماعتیں سوال اٹھارہی ہیں

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میںمیزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیوز لیکس کمیٹی کی رپورٹ منظرعام پر لانے میں تاخیر پر اپوزیشن جماعتیں سوال اٹھارہی ہیں، پاناما کیس کے فیصلے کو آئے ایک ہفتہ ہوچکا ہے، ان سات دنوں میں وفاقی دارالحکومت میں گرمی کے ساتھ سیاسی پارہ بھی ہائی ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایک اور دن گزر گیا لیکن انتظار کی گھڑیاں ختم ہو کر نہیں دے رہی ہیں، تمام تر وعدوں اور دعوؤں کے باوجود کئی ماہ بعد بھی نیوز لیکس کی رپورٹ کیلئے قوم کوا نتظار فرمایئے کا مشورہ دیا جارہا ہے، اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف سے وزیرداخلہ چوہدری نثار کی ملاقات بھی ہوئی جس میں وزیراعظم نے نیوزلیکس کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد کرنے کی ہدایت کی ہے،ان سفارشات میں کیا ہے وہ غیرسرکاری طور پر تو میڈیا میں بہت کچھ لیک ہوا ہے لیکن سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے، غیرسرکاری طور پر بھی جو پتہ چلا ہے اس پر عمران خان نے اپنی رائے بنالی ہے اور یہ رائے نہ صرف نیوزلیکس کے حوالے سے ہے بلکہ ممکنہ پاناما جے آئی ٹی پر بھی انہوں نے انہی خدشوں کا اظہار کردیا ہے، عمران خان کی نظر میں نیوز لیکس کو مینیج کیا گیا ہے، عمران خان کی نظر میں نیوز لیکس کی ایک ایسی کمیٹی جس میں حکومتی اور عسکری نمائندے تحقیقات میں حصہ لے رہے تھے اسے مینیج کیا گیا اس لئے عدالتی جے آئی ٹی میں بھی اگر عسکری ادارے ہیں تو عمران خان اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ کیا وہ بھی مینیج ہوسکتی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق کچھ قانونی اور انتظامی امور طے کرنا لازمی ہے تاکہ نیوز لیکس کمیٹی کی سفارشات کا اعلان ہوتے ہی ان پر فوری عملدرآمد شروع ہوجائے، آئندہ چوبیس سے چھتیس گھنٹوں میں ان امور پر کام مکمل کرلیا جائے گا جس کے بعد کمیٹی کی سفارشات کا باقاعدہ عملدرآمد کے ساتھ اعلان کردیا جائے گا۔ نیوز لیکس کمیٹی کی رپورٹ منظرعام پر لانے میں تاخیر پر اپوزیشن جماعتیں سوال اٹھارہی ہیں، عمران خان نے گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں حکومت پر نیوز لیکس کی رپورٹ کو مینیج کرنے کا الزام لگایا، عمران خان نے یہ بات اس سوال کے جواب میں کہی کہ جب ان سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے جو جے آئی ٹی بنائی ہے آپ کو کیوں لگتا ہے کہ نواز شریف اس کو مینیج کرلیں گے حالانکہ اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی بھی ہیں تو عمران خان نے مثال دی کہ نیوز لیکس میں بھی تھے وہ بھی مینیج ہوگئے ، عمران خان نے جمعرات کوایک اور ٹی وی کوا نٹرویو میں بھی یہی بات دہرائی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے الزامات اور تنقید کے باوجود حکومت کو نیوز لیکس کی رپورٹ جلد جاری کرنے میں دلچسپی نہیں ہے، وزیراعظم نواز شریف کے ترجمان مصدق ملک کے مطابق نیوز لیکس کمیٹی کی رپورٹ چھبیس اپریل کو موصول ہوئی ہے، آئندہ چند دنوں یں کمیٹی کی سفارشات سے سب کو آگاہ کردیا جائے گا، اس سے پہلے رپورٹ پر قیاس آرائیاں کرنا غلط ہوگا، یعنی حکومت میڈیا پر آنے والی خبروں کی تردید کرنے پر بھی تیار نہیں ہے مگر اس بات کی بھی توقع کی ہوئی ہے کہ جو خبریں آگئی ہیں ہم انہیں غلط نہیں کہیں گے مگر آپ پھر بھی نیوز لیکس پر تبصرہ نہ کیجئے، جو ڈیڈلائن ہم نے دی تھی اس کے مطابق بھی رپورٹ نہیں آئی ہے مگر اس کے باوجود اگر خبریں باہر آگئی ہیں تو تبصرہ نہ کیجئے، عمران خان نے اپنی رائے بنالی ہے، میڈیا پر یہ رپورٹ آچکی ہے مگر حکومت چاہتی ہے کہ نیوز لیکس کی رپورٹ سامنے آنے تک افواہوں اور قیاس آرائیوں پر کان نہ دھرے جائیں لیکن اس کے باوجود بھی حکومت خود بھی اس کے موقع بھی فراہم کررہی ہے، وزیرداخلہ چوہدری نثار نے اکیس اپریل کو کہا تھا کہ نیوز لیکس کی رپورٹ پیر یا منگل کو انہیں مل جائے گی اور وہ اسی دن وزیراعظم کو پہنچادیں گے، اب نیوز لیکس کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جاچکی ہے اس کے باوجود حکومت اسے جاری نہ کرکے افواہوں کو بازار گرم کرنے کا موقع دے رہی ہے، جب تک انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آئے گی قیاس آرائیاں اور تبصرے ہوتے رہیں گے۔پروگرام میں شاہ محمود قریشی ،خورشید قصوری ،مریم اورنگزیب اور رانا جواد نے بھی اظہار خیال کیا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے کو آئے ایک ہفتہ ہوچکا ہے، ان سات دنوں میں وفاقی دارالحکومت میں گرمی کے ساتھ سیاسی پارہ بھی ہائی ہے جس میں جمعہ کو مزید شدت آنے کا امکان ہے اور اس کی وجہ تحریک انصاف جمعہ کا جلسہ ہے جس سے عمران خان خطاب کریں گے، جمعہ  کے سیاسی شو سے پہلے ہی وفاقی دارالحکومت میں سیاسی گرما گرمی عروج پر رہی، پی ٹی آئی رہنماؤں کو پی آئی ڈی اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کی اجازت نہیں دی گئی جس پر تحریک انصاف کے رہنماؤں شہریارآفریدی، شبلی فراز ا انتظامیہ سے تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، اس موقع پر پی ٹی آئی رہنماؤں نے جمعہ کا جلسہ پوری طاقت سے کرنے کا اعلان بھی کیا،پی ٹی آئی کو پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس کی اجازت نہ دینے پر وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو پی آئی ڈی کے قواعد و ضوابط سے آگاہ کردیا گیا تھا جس کے مطابق سیاسی رہنما پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس نہیں کرسکتے، یہ بات واضح ہو کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے اس پر یہ اعتراض رہا ہے کہ وہ حکومتی آفسز ہوں چاہے پی آئی ڈی ہو یا دوسرے آفسز ہوں اس میں اپنی اپوزیشن کو تنقید کرنے کیلئے اور حکومتی پالیسیاں نہیں شریف خاندان کا دفاع کرنے کیلئے یہ باقاعدہ طورپران کا استعمال کرتے ہیں، سرکاری ٹی وی کے حوالے سے تنقید رہی ہے کہ جس کی تقریر چاہتے ہیں دکھاتے ہیں، اپنے اوپر جو تنقید ہوتی ہے وہ نہیں دکھاتے، یہ بارہا ہوتا رہا ہے، جب وزیر اطلاعات پرویز رشید تھے تو وہ ذمہ داری اسپیکر قومی اسمبلی پر ڈالتے رہے، اسپیکر کا کہنا تھا کہ یہ میری ذمہ داری نہیں ہے وزارت اطلاعات خود فیصلہ کرتی ہے، مگر اس حکومت کا یہ مسئلہ بہرحال رہا ہے کہ جو حکومتی ریسورسز ہیں چاہے وہ پی ٹی وی ہو یا پی آئی ڈی کے آفسز ہوں انہیں شریف خاندان کے دفاع کیلئے اور اپوزیشن کو بلیک آؤٹ کرنے کیلئے ان کی طرف سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سجن جندال کا نام اکثر سننے میں آتا ہے اور جمعرات کو بھی خبروں میں یہ نام بار بار آرہا ہے، جمعرات کی شام خبریں آئیں کہ سجن جندال نے پاکستان کا غیراعلانیہ دورہ کیا اور وزیراعظم نواز شریف سے مری میں ملاقات کی، یہ ملاقات بھارتی تاجروں کے وفد کی گزشتہ روز مری میں وزیراعظم نواز شریف سے غیراعلانیہ ملاقات کا حصہ تھی، اب سجن جندال کو لے کر ملک میں ہلچل مچی ہوئی ہے، افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ہے، کہا جارہا ہے کہ سجن جندال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا خفیہ پیغام لے کر آئے ہیں، ان خبروں پر وزیراعظم کی صاحبزادی اور ن لیگ کی رہنما مریم نواز نے ٹوئٹر پر ردعمل دیا کہ مسٹر جندال وزیراعظم کے پرانے دوست ہیں، اس ملاقات میں کوئی بات خفیہ نہیں، اس معاملہ کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جاناچاہئے مگر یہ نہیں بتایا کہ کیا کوئی پیغام لے کر آئے تھے اور اگر لے کر بھی آئے تھے تو اس میں کیا حرج ہے، ایک وزیراعظم کی طرف سے دوسرے وزیراعظم کوا گر پیغام آتا ہے، اتنے تناؤ کے ماحول میں آتا ہے اور بات اگر آگے بڑھ سکتی ہے تو اس میں کیا حرج ہوسکتا ہے اس پر تبصرہ نہیں کیا گیا، یہ نہیں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں بیک چینل نے بھی اور بزنس مینوں نے بھی ممالک کے درمیان بڑی بڑی لڑائیاں ختم کرانے یا دو ملکوں کے صدر یا وزیراعظم کو ملانے کیلئے کردار ادا کیا ہے تو اس میں حرج کیاہے، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سجن جندال کا نام سننے میں آرہا ہے خاص طور پر پاک بھارت تعلقات اور مودی نواز شریف ملاقاتوں میں بھی سجن جندال کا نام بار بار سامنے آتا رہا ہے، چاہے وہ پچیس دسمبر 2017ء کو لاہور میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اچانک آمد ہو یا پھر 2015ء میں نیپال میں سارک کانفرنس کے موقع پر دونوں وزرائے اعظم کی خفیہ ملاقات کی خبریں ہوں جس کی تردید بھی ہوتی رہی مگر سجن جندال کا نام اس میں بھی آتا رہا، اس موقع پر یہ بات پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی ہوتی رہی ہے کہ سجن جندال پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقاتوں کا انتظام کرتے رہے ہیں، سجن جندال کا نام 2014ء میں اس وقت منظرعام پر آیا تھا جب وزیراعظم نواز شریف، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں نئی دہلی گئے تھے اور اس دوران وزیراعظم نواز شریف بھارت میں سجن جندال کے گھر بھی گئے تھے اور بھارتی میڈیا میں خبریں سامنے آئی تھیں کہ وزیراعظم کا مودی کی حلف برداری میں جانا اور مودی کا نواز شریف کو دعوت دے کر بلانا بھی سجن جندال کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا، اس مرتبہ بھی سجن جندال کی وزیراعظم نواز شریف سے مری میں ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دو ماہ بعد قازقستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر دونوں رہنماؤں کی ملاقات کی باتیں ہورہی ہیں، سترہ اپریل کو ایک روزنامہ میں خبر شائع ہوئی جس کے مطابق پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، دونوں رہنما جون میں قازقستان میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ میں شرکت کریں گے جہاں نواز مودی ملاقات کا امکان بھی ہے، خبر کے مطابق بااثر ممالک ان دونوں ملکوں کو بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ بڑھتی ہوئی ٹینشن کو کم کیا جاسکے۔
تازہ ترین