• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حامد میر کا شکریے کے ساتھ حسینہ واجد کو ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان

 کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میزبان حامد میرنے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے دس ارب روپے کی پیشکش کے دعوے پر سیاسی حلقوں میں بہت بحث ہورہی ہے، حکومت اور سیاسی جماعتیں عمران خان سے یہ پیشکش لانے والے دوست کا نام سامنے لانے کا مطالبہ کررہی ہیں،بھارت نے آج تین ہزار کلومیٹر رینج والے اگنی تھری کا تجربہ کیا ہے جو ایٹمی وارہیڈ بھی لے کر جاسکتا ہے، امریکی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم پر باقاعدہ چیخ اٹھا ہے، نیویارک ٹائمز نے ایک اداریے میں انڈین فورسز کے کشمیر میں ظلم و ستم پر بھرپور تنقید کی ہے، اس صورتحال میں بھارتی بزنس مین سجن جندال نے مری میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی ہے، اس ملاقات کا وقت بہت اہم ہے، بظاہر تو کہا جارہا ہے کہ جندال ، نواز شریف کے پرانے دوست ہیں اور اس ملاقات کو بڑھاچڑھا کر پیش نہ کیا جائے، ان کی پہلی دفعہ ملاقات نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ بار بار ملاقات کررہے ہیں، جندال، نواز ملاقات کا وقت بہت اہم ہے اس لئے اس پر سوال بھی اٹھائے جائیں گے اور جواب حاصل کرنا بھی لوگوں کا حق ہے۔حامد میر نے کہا کہ پاکستان میں مجھ سمیت بہت سے لوگ پاکستان اور بنگلہ دیش کے در میا ن اچھے تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان میں بہت سے بزرگ جن میں میرے والد بھی شامل تھے ، ہمیں 2013ء میں اپروچ کیا گیا کہ بنگلہ دیش کی حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے ان تمام پاکستانیوں کو ایوارڈدینا چاہتی ہے جنہوں نے 1971ء کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی تو بارہ تیرہ لوگوں نے صرف اس لئے اس دعوت کو قبول کیا کہ شاید بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد پاکستان کے تعلقات معاملات کو بہتر بنائے گی، ہم نے بنگلہ دیش جاکر اپنے والد ین کی طرف سے ایوارڈ وصول کیے لیکن اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ حسینہ واجد نے تعلقات بہتر بنانے کے مزید خراب کیے ہیں، حسینہ واجد نے صورتحال یہاں پہنچادی ہے کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کو بھی پاکستان بھیجنے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بالکل ختم کرنا چاہتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ حسینہ واجد نے پاکستانیوں کو جو ایوارڈ دیئے وہ دراصل ایک دھوکا تھا، میں یہاں کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمیں شکریے کے ساتھ یہ دھوکا اسے واپس کردینا چاہئے ، کم از کم میں یہ دھوکا واپس کررہاہوں۔حامد میر کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ میں نے دس ارب روپے کی پیشکش لانے والے بزنس مین کا نام بتایا تو یہ اس کا بزنس تباہ کردیں گے، میری اطلاع کے مطابق وہ بزنس مین سامنے آنے کیلئے تیار ہے لیکن عمران خان اس کا نام نہیں بتارہے ہیں۔ پروگرام میں مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم ،پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز، دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب اوربھارتی صحافی جیوتی ملہوترا نےبھی اظہار خیال کیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سجن جندال اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات کی وہ اہمیت نہیں جو سمجھی جارہی ہے، اس ملاقات پر شک کرنے کے بجائے مثبت انداز میں لینا چاہئے، وزیراعظم نواز شریف پر ملکی مفادات پر سمجھوتہ کرنے کا شک نہیں کیا جاسکتا ہے، سجن جندال اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات کا وقت اس لئے بھی موزوں ہے کہ دونوں ملکوں میں تناؤ زیادہ ہے، اگر انڈیا میں کچھ لوگوں سے پاکستانی حکومت کے سرکردہ رہنماؤں کے تعلقات ہیں تو یہ مثبت بات ہے، انڈین وزیر مانی شنکر کے بھی پاکستان میں بہت سے لوگوں سے ذاتی تعلقات ہیں، ایسے لوگ کئی دفعہ باہمی تعلقات کو بہتر کردیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انڈیا پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کررہا ہے اور کرتا رہے گا، پاکستان انڈیا کی کوششوں پرخاموش نہیں بیٹھ سکتا ہے ، ہم بھی سفارتی سطح پر اپنی کوششیں کریں گے، انڈیا کو پاکستان نہیں بنگلہ دیش اور بھوٹا ن جیسے ملک چاہئیں جن پر وہ حکم چلاسکے، احسان اللہ احسان کی جو باتیں ضروری تھیں وہ ٹی وی پر نشر ہوئی ہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں، احسان اللہ احسان کی جو باتیں ایکسپوز ہوئیں اس میں بہت کچھ ہے، کلبھوشن یادیو کی طرح احسان اللہ احسان کے بھی روابط ہیں، کلبھوشن اور احسان اللہ احسان کے واقعات پاکستان کیلئے بہت بڑے بریک تھرو ہیں، ان سے دہشتگردی کو کنٹرول کرنے میں بہت فائدہ ہوگا۔ سینیٹر عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ عمران خان بھی بھارت جاکر نریندر مودی سے ملے تھے حالانکہ انہیں بھی پتا ہے انڈیا ہمارا ازلی دشمن ہے، عمران خان نے جن لوگوں پر دس ارب روپے کی پیشکش کا الزام لگایا ان کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے وقار کو بچانے کیلئے عمران خان سے پیشکش لانے والے کا نام پوچھیں، اگر عمران خان کو ڈر ہے کہ نواز شریف اس شخص کا بزنس تباہ کردیں گے تو اگر نواز شریف نے اس شخص کو استعمال کیا ہے تو انہیں اس کا نام تو پتا ہوگا، عمران خان کو ہوا میں باتیں کرنے کے بجائے ثبوت کی بنیاد پر بات کرنی چاہئے، جس شخص نے یہ بات کہی ہے اسے قوم کے سامنے آکر یہ بات کہنی چاہئے، کوئی اتنا بیوقوف نہیں ہوسکتا کہ اپنے سیاسی حریف کی بولی لگائے، عمران خان نے کشمیر کے الیکشن میں بھی کشمیر کاز کا ذکر نہیں کیا تھا، وہاں بھی ذکر نواز شریف اور پاناما لیکس کا ہی کرتے رہے۔ سینیٹر عبدالقیوم نے حامد میر سے کہا کہ آپ نے جس طرح بنگلہ دیش کا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا ہے باقی لوگوں کو بھی پیروی کرنی چاہئے، حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کوبھارت کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے، بنگلہ دیشی وزیراعظم جو کچھ کررہی ہیں اس سے بنگلہ دیشی اور پاکستانیوں کے ساتھ بھارتی مسلمانوں کے بھی دل دکھیں گے۔ پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فرازنے کہا کہ نواز شریف نے کبھی انڈیا کیخلاف جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا ہے ، کلبھوشن یادیو کے معاملہ پر بھی وزیراعظم نے کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا، سجن جندال اگر انڈیا کی سیاسی شخصیت ہوتے تو پھر بھی وزیراعظم کے ان سے تعلقات ٹھیک ہوتے، کارو با ری تعلقات میں بعض دفعہ ذاتی مفادات کی وجہ سے ملکی مفادات پر سمجھوتہ کرلیا جاتا ہے، وزیراعظم اپنے کاروباری تعلقات میں کئی دفعہ پاکستان کی پوزیشن پر سمجھوتہ کرجاتے ہیں۔شبلی فراز کا کہنا تھا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جندال جدہ میں وزیراعظم کی اس اسٹیل مل میں بھی پارٹنر تھے جس کا یہ ذکر کرتے ہیں کہ پیسے وہاں سے بیچ کر وہاں پر لائے، ان کی فیکٹری میں وہاں اکثریت انڈین ورکرز کی تھی، انڈیا نے ہمیشہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کی ہے، سی پیک منصوبے کو تباہ کرنے کیلئے انڈیا کی سرگرمیاں عروج پر ہیں، انڈیا کو پاکستان کی معاشی اور تزویراتی اہمیت ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف انڈیا پاکستان کیخلاف جارحیت کررہا ہے دوسری طرف نواز شریف اپنے ذاتی تعلقات میں بھول گئے ہیں کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بھی ہیں، نواز شریف کو اپنے تعلقات پاکستان کے مفاد اور کشمیر میں بھارتی مظالم ختم کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہئیں، عمران خان ، مودی سے بالواسطہ طریقوں سے نہیں ملے تھے نہ ان کا کوئی کاروباری مفاد ہے۔ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ عمران خان کو دس ارب روپے کی پیشکش پر بحث سمجھ نہیں آرہی ہے، شریف خاندان ایک ایسا بزنس طبقہ ہے جنہوں نے اقتدار کو بھی پیسے کے ذریعے حاصل کیا اور پیسے کے ذریعے ہی اقتدار کو دوام دیا، یہ لوگوں کو خریدتے اور بیچتے رہے ہیں، عمران خان کو مقبولیت کی ضرورت نہیں کہ وہ ایسا الزام لگائیں، میں بھی اس ٹی وی پروگرام میں موجود تھا جس میں اینکر نے اس پیشکش کے بارے میں ثبوت دینے کیلئے کہا تھا، جو لوگ چیزوں کو جانتے ہیں انہیں پتا ہے کہ ایسا ہوا ہے، لوگ جانتے ہیں اس ملک میں کس طرح چیزوں کو حل کرلیا جاتا ہے اس تناظر میں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ پر اپنا حق سمجھ کر وہاں سجن جندال کیخلاف پریس کانفرنس کرنے گئے تھے لیکن ہمیں اندر ہی نہیں آنے دیا گیا، انڈیا ہمارے ساتھ اور کشمیر میں کیا کررہا ہے اور وزیراعظم کے انڈین کاروباری دوست پاکستان آکر ان سے ملاقاتیں کررہے ہیں، جو ہمارا ملک کے دشمن ہوگا ہم اس کو اس طرح نہیں کرنے دیں گے ۔  دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب نے کہا کہ قوم نے وزیراعظم کو پاکستان امانت کے طور پر دیا ہوا ہے، نواز شریف بطور وزیراعظم ملک کے رکھوالے بھی ہیں اوران کے اپنے کاروباری مفادات بھی ہیں، نواز شریف نے اپنے ذاتی تعلقات کو آج تک کس ملکی مفاد کیلئے استعمال کیا ہے، نواز شریف اگر انڈیا کے ساتھ کرکٹ ہی بحال کروالیتے تو سمجھاجاتا کہ ذاتی تعلقات کے علاوہ انہیں ملکی مفاد بھی یاد ہے، مجھے فکر ہے کہ نواز شریف کے انڈینز کے ساتھ تعلقات کو انڈیا استعمال نہ کررہا ہوں، آج کل انڈیا کو پاکستان کی طرف سے کئی قسم کی رعایتوں کی ضرورت ہے، مودی کو خود بھارتی کہہ رہے ہیں کشمیر میں مذاکرات سے مسائل حل کریں۔ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کو کوئی ایسا آدمی چاہئے جو پاکستان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلوا سکے، انڈیا کی طرف سے بات چیت ایک ٹریپ ہے وہ اس کے ذریعے کشمیر میں معاملہ ٹھنڈا کرناچاہتا ہے، سجن جندال کے ساتھ وزیراعظم کی ملا قا ت کا وقت درست نہیں ہے، کل کشمیر یا کسی دوسرے معاملہ پر کوئی بات ہوگئی تو وزیراعظم کیلئے پرابلم بن سکتی ہے۔امجد شعیب نے کہا کہ بنگلہ دیش اب کوئی آزاد ملک نہیں بلکہ انڈیا کی ایکسٹینشن بن چکا ہے، بعض لوگوں کو پرابلم ہوئی ہے کہ جیو پر احسان اللہ احسان کا انٹرویو کیوں نشر ہوا ہے، اس پر بڑے لوگوں کو تکلیف ہوئی ہے اور وہی زیادہ کہہ رہے ہیں۔ امجد شعیب نے کہا کہ عمران خان کی مرضی ہے کہ وہ دس ارب روپے کی پیشکش لانے والے کا نام بتائیں یا نہ بتائیں، اسی طرح جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ عمران خان نے ہوا میں یہ بات چھوڑی ہے تو یہ ان کی مرضی ہے، جس طرح صحافی اپنی خبر کے ذرائع نہیں بتاتے یہاں بھی وہی صورتحال ہے، وہاں بھی یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ذریعے کے پکڑے جانے یا مارے جانے کا چانس ہوتا ہے، میں نے دو ایک اور لوگوں سے بھی سنا ہے کہ یہ بات درست ہے، ایک ٹی وی چینل پر ایک اینکر نے دعویٰ کیا کہ اگر کسی کو اس پر شک و شبہ ہو اور مجھے کوئی چیلنج کرے تو میں ثبوت دینے کو تیار ہیں،اس کا مطلب ہے ان سے بھی اس حوالے سے پوچھا جاسکتا ہے، اس معاملہ پر وزیراعظم اگر عدالت میں چلے جائیں تو بہتر ہوگا۔ امجد شعیب نے کہا کہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی افسوسناک ہے، کشمیر کا نام لینا صرف حافظ سعید یا کشمیری مہاجروں کا کام نہیں ہے، اگر نیویارک ٹائمز کشمیرمیں بھارتی مظالم پر آواز اٹھاسکتا ہے تو ہمارا میڈیااور سیاسی جماعتیں کیوں آواز نہیں اٹھاتی ہیں، حکومت پیمرا کے ذریعے اس کا انتظام کرے۔ بھارتی صحافی جیوتی ملہوترا نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف مئی 2014ء میں جب بھارتی وزیر اعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب میں آئے تھے اس وقت بھی ان کی سجن جندال کے گھر میں ملاقات ہوئی تھی، اس سال جنوری میں ڈیووس سمٹ میں بھی سجن جندال کی وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے، اس کا تو پتا نہیں کہ پاک بھارت بیک چینل ڈپلومیسی دوبارہ شروع ہورہی ہے یا نہیں لیکن پاکستانی وزیراعظم نواز شریف ، سجن جندال کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی سرکار کی سخت پوزیشن کے پیش نظر قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر بیک چینل ممکن نظر آتا ہے، سجن جندال کا نہیں پتا کہ کیا وہ اتنے اہم ہیں کہ بیک چینل کھول سکیں۔  
تازہ ترین