• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے رشوت کی پیشکش کا الزام لگانے پر قانونی ماہرین کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی تیاری کی ہدایت کر دی ہے۔ خان صاحب نے چند روز قبل الزام لگایا تھا کہ حکومت نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ایک قریبی بزنس مین دوست کے ذریعے پانامہ کیس پر خاموشی اختیار کرنے کے لئے انہیں دس ارب روپے کی پیشکش کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ بات پھر بھی نہ بنے تو رقم بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس معاملے پر سیاسی حلقوں اور میڈیا میں کافی بحث ہو چکی ہے ۔ جمعرات کو وزیراعظم کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس میں اس سنگین الزام کو مسترد کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ حکومت اور مسلم لیگ ن کے سینئر وکلا آئندہ چند روز میں عمران خان کو ہرجانے کا نوٹس بھجوائیں گے اور اگر انہوں نے معافی نہ مانگی تو باقاعدہ عدالتی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ نواز شریف نے اجلاس میں کہا کہ جھوٹے الزامات لگانے والوں کو پہلے بھی ناکامی ہوئی اور آئندہ بھی مایوسی ہو گی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان الزام ثابت نہ کر سکے تو آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے تحت نااہل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ خان صاحب کے الزام کا مقصد پانامہ کیس پر بننے والی جے آئی ٹی اور ریاستی اداروں کو دبائو میں لانا ہے۔ مسلم لیگ ن کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ سچے ہیں تو ثبوت دیں اور رشوت کی پیشکش پہنچانے والے کا نام بتائیں۔ اے این پی نے بھی ان سے یہی مطالبہ کیا ہے لیکن خان صاحب اور ان کے رفقا کہتے ہیں کہ نام بتا دیں تو حکومت اس شخص کا کاروبار تباہ کردے گی۔ کہا جاتا ہے کہ پیشکش کرنے والا ایک کھرب پتی تاجر ہے اور وہ خود بھی سامنے آنے کو تیار ہے مگر پی ٹی آئی اسے روک رہی ہے، رشوت کی پیشکش کا ذکر عمران خان نے پشاور کی ایک تقریب میں غیر روایتی انداز میں کیا جبکہ ماضی میں اپنی سیاست کو متحرک رکھنے کے لئے وہ ایسے بڑے الزامات جلسوں، ریلیوں اور پریس کانفرنسوں میں لگاتے رہے ہیں۔ خان صاحب نے پیغام رساں کا نام ظاہر کیا نہ یہ بتایا کہ اس نے کب یہ آفر کی۔ صرف اتنا کہا کہ وہ شہباز شریف اور میرا مشترکہ دوست ہے۔ پھر انہوں نے اتنا بڑا الزام لگانے کے لئے ایسے وقت کا انتخاب کیا جب عدالت پانامہ کیس کا فیصلہ بھی سنا چکی ہے اور شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنانے کا حکم بھی دے چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر درمیان والے آدمی کو بہت پہلے یہ پیشکش پہنچانے کا کہا گیا تھا تو وہ خاموش کیوں رہا اور اب جبکہ معاملہ فیصلہ کن مرحلے میں پہنچ چکا ہے تو اس نے عمران خان کو یہ آفر کیوں پہنچائی۔ اب تو خود عمران خان بھی چاہیں تو وقت کا پہیہ پیچھے نہیں لے جا سکتے۔ خان صاحب پہلے بھی اس طرح کے حربے آزماتے رہے ہیں، ان کا زیادہ تر انحصار سنی سنائی باتوں پر ہوتا ہے وہ عدلیہ سے لے کر الیکشن کمیشن تک ملک کے ہر ادارے کو بدنام کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ 35پنکچروں کی بات انہوں نے سنی سنائی باتوں پر کی، پھر اس سے منحرف بھی ہو گئے۔ دس ارب روپے کی رشوت کی بات بھی انہوں نے ایک دوست سے سنی۔ دو ہفتے خاموش رہے بھر اس کا ذکر کردیا۔ خان صاحب طویل عرصے سے سیاست میں ہیں انہیں سمجھنا چاہیئے کہ قوم کی قیادت کے لئے انہیں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس وقت وہ ملک کی تیسری بڑی سیاستی جماعت کے سربراہ ہیں اور مستقبل میں اس سے آگے بھی جا سکتے ہیں۔ خود کو اتنا متنازعہ نہ بنائیں کہ قومی قیادت پرفائز ہونے کا خواب ادھورا رہ جائے اس کے لئے انہیں الزامات کی سیاست سے اجتناب برتنا چاہیئے اور اگر کوئی الزام لگائیں تو پھر اس کا ثبوت بھی دیں آزاد میڈیا کے اس دور میں عوام اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کوئی الزام، کوئی دعویٰ قبول نہیں کریں گے۔یہ معاملہ بہت سنگین ہے اور اس کی عدالتی تحقیقات ضروری ہے۔

.
تازہ ترین