• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم جیسے کودن زندگی بھر اپنی لاعلمی، بے خبری اور جہالت کے ہاتھوں پریشان رہتے ہیں۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے، اپنی کم مائیگی کا احساس شدید ترہوتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس دعا، وِرد میں شدت بڑھتی جاتی ہے ’’رب زِدنی علما، رب زِدنی علما، رب زِدنی علما‘‘’’علموں بس کریں او یار‘‘کیونکہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کتاب زندگی کا سب سے بڑا عذاب اور سراب ہے۔ انسان جتنا پڑھتا چلا جاتا ہے، یہ احساس کمتری اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا۔ عمر کے سالوں کے ساتھ سوالوں کے سلسلے طویل تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور جواب ندارد۔ جسے اپنی کسی چھوٹی موٹی بیماری کی تشخیص کے لئے کسی اور کو کنسلٹ کرنا پڑے اس کی اوقات ہی کیا؟ گاڑی خراب ہو جائے تو ورکشاپ بھیجنا پڑتی ہے، اے سی خراب ہو جائے تو مکینک بلانا پڑتا ہے اور تو اورزندہ رہنے کے لئےخوراک کی فراہمی کے لئے بھی کسی کی محتاجی، تن ڈھانپنے کے لئے میں اپنا کپڑا خود نہیں بنا سکتا، بنا لوں تو اسے سلوانےکے لئے درزی کی ضرورت۔ ایسا ایسا ’’مضمون‘‘ دنیا میں متعارف ہوچکا اور پڑھایا جارہا ہے جس کے ہم نام سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ یہ سیل فون نامی بلا کیسے کام کرتی ہے؟ میں نہیں جانتا لیکن ڈھیٹوں کی طرح استعمال کئے جاتا ہوں۔ فکری طور پر کتنا کنگال ہوں میں جسے پودینے کے پتے کی بھی سمجھ نہیں اور جو یہ بھی نہیں جانتا کہ پھول کھلنے سے پہلے شاخ کے اندر کن مراحل سے گزرتا ہے۔ زندگی بھر زندگی کی ہی سمجھ نہیں آتی۔ ایسے میں انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے، اک ہوک سی اٹھتی ہے جو سب کچھ جانتےہیں اور جن کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے، ہر مسئلے کا حل حاضر۔میرے شب و روز ایسی ہی سوچوں اور پریشانیوں میں گزرتے ہیں لیکن آج کل اک اور فضول سی پریشانی نے گھیر رکھا ہے کہ یہ عقدہ حل کیسے ہوگا؟ وہ جینئس کہاں سےدرآمد یا برآمد ہوگا جو اس سوال کا دوٹوک، واضح اور کنونسنگ جواب دے سکے کہ عمران سچا ہے یا حکمران؟عمران خان نے کہا حکمران خاندان نے 10ارب روپے میں اس کی خاموشی یا سونامی خریدنے کی کوشش کی۔حکمرانوں نے اسے سفید جھوٹ قرار دیتے ہوئے قانونی کارروائی کااعلان کر دیا کہ اس کے علاوہ چارہ ہی کوئی نہیں۔ ریمنڈ بیکر کے بھیانک ترین الزامات پر تو ان لوگوںنے مٹھ رکھی، خاموشی اختیار کی کہ وہ گورا نہ ان کا سیاسی حریف ہے نہ سر اور اعصاب پر دن رات عمران کی طرح سوار، تو کیا یہ مان جاتے کہ ہاں ہم نے عمران کو رشوت آفر کی۔ سختی سے انکار اور اسے جھوٹ قرار دینا ہی واحد جواب تھا جو دے دیا گیا اور جواب میں جان ڈالنے کے لئے قانونی کارروائی کا تڑکا لگا دیا۔ جو للوپنجو تردیدیں کر رہے ہیں، کیا یہ آفر انہیں پوچھ کر دی گئی ہوگی؟ نہیں ہرگز نہیں کیونکہ ’’اس طرح نہیں ہوتا اس طرح کے کاموں میں‘‘ کسی کی ’’ہسٹری‘‘ کیسی ہے؟ یہ بھی میرا ایشو نہیں۔ کون سچا کون جھوٹا؟ یہ بھی میرا موضوع اور سردرد نہیں۔ جہاں اوپن اینڈ شٹ کیسز کے فیصلے بھی محال ہوں وہاں کوئی باپردہ گھریلو بی بی یہ کیسے ’’ثابت‘‘ کرے گی کہ فلاں اوباش یا تلنگے نے اسے آنکھ ماری یا فحش اشارہ کیا تھا۔ یہ ایسا ہی ’’کیس‘‘ہوگا۔عمران نے کہا ’’آفر کی‘‘یہ کہہ ہے ہیں..... ’’نہیں کی‘‘وہ کیسے ثابت کرے گا کہ آفر کی تھی۔یہ کیسے ثابت کریں گے کہ آفر نہیں کی تھی۔جس کے ذریعے آفر آئی وہ آفر لانے والے کا نام بھی لے دے گااور اگر، اگر، اگر یہ سچ ہے تو آفر لانے والا صاف مکر جائے گا یا کہہ دے گا مذا ق کےطور پر ذاتی حیثیت میں بات کی "My word against yours" سے آگے بات بڑھے گی کیسے ؟ میری اطلاع کے مطابق ابھی تک ایسی کوئی مشین بھی ایجاد نہیں ہوئی جو اس قسم کے تنازع میں سچ جھوٹ کا فیصلہ دینے میں معاونت فراہم کرسکے تو پانی میں مدھانی چلانے والی اس ایکسرسائز کا نتیجہ کیا نکلے گا اور کیسے؟ غزل جواب آں غزل سے بات آگے کیسے بڑھے گی؟ کم از کم میری عاجز و ناقص عقل سے بہت باہر کی بات ہے۔البتہ ان کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی ضرور چاہتا ہے جواس الزام اور ردِالزام کو بہت سیریس اور سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے بہ آسانی یہ حقیقت نظرانداز کر رہے ہیں کہ پورا معاشرہ دو نمبر میں ایک نمبر کے مقام پر فائز ہے۔ رشوت، کمیشن، کک بیک، میرٹ کی پامالی، اقرباپروری، اپنے اپنے پالتوئوں کو سرکاری خرچ پر پالنا، طفیلیوں کو ان کے اہل و عیال سمیت راشی اور جوسی تعیناتیاں، کونٹریکٹ کے نام پر وظیفے تو ہمارا کلچر اور وے آف لائف ہے۔ کون سا شعبہ، محکمہ، میدان ایسا ہے جہاں سے ننگی لوٹ مار کی خبریں آئے روز نہیں آتیں؟ایسے پاکیزہ ماحول میں ایسے اسکینڈل پر جزبز ہونا، اخلاقیات کا ماتم کرنا، چیخنا چنگھاڑنا بے معنی سی بات ہے۔ ہمارے تو محاورے بھی بیہودہ اور غیرمنطقی ہیں مثلاً ’’دودھ کا دودھ پانی کا پانی‘‘ کے شوقینوں کو کیا یہ خبر نہیں کہ دودھ تو ہوتا ہی پانی ہے۔’’اس طرح نہیں ہوتا اس طرح کے کاموں میں‘‘شعیب بن عزیز سے معذرت لیکن مصرعہ یہی مناسب ہے۔



.
تازہ ترین