• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر سیاسی مقبولیت اور کامیابی کا تعین اخلاقیات کرتیں توپاناما کیس کا فیصلہ شریف برادران کی سیاست کے لئے موت کی گھنٹی ثابت ہوتا۔ وزیر ِاعظم کے خلاف کیس یہ تھا کہ وہ بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اُن کے زیر کفالت افراد اُن کی اعلانیہ آمدنی سے کہیں بڑھ کر اثاثوں کے مالک ہیں۔ وزیر ِاعظم نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اُن کے بچے لندن فلیٹس کے مالک ہیں۔ تاہم کوئی فاضل جج اس بات پر قائل نہ ہوسکا کہ یہ فلیٹس موجودہ وزیر ِاعظم کے بچوں کے تھے، نہ کہ وزیر ِاعظم کے ۔ چنانچہ اُنھوںنے مذکورہ فلیٹس کی بابت وزیر ِاعظم اوراُن کے بچوں کی پیش کردہ وضاحتوں کو متفقہ طور پر مسترد کردیا۔
تاہم جب پیش کردہ حقائق پر قانون کے اصولوں کے اطلاق کی باری آئی تو اس پر جج صاحبان متفق نہ ہوسکے ۔ چنانچہ ہم نے پانچ آرا دیکھیں۔تین ججوں نے مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دینے ، جبکہ باقی دو نے وزیر ِاعظم کو سپریم کورٹ کے سامنے اپنے مالی معاملات کی مستند کہانی بیان کرنے میں ناکامی پر برطرف کرنے کا حکم دیا ۔ فاضل عدالت نے نتیجہ نکالا کہ ہمارے وزیر ِاعظم کا اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان سچائی کی غمازی نہیں کرتا تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی وضاحت ، کہ اُن کے بچے کس طرح فلیٹس کے مالک بنے ، کو بھی احمقانہ قرار دے دیا گیا۔ کیا کسی باوقار سیاسی نظام میں ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کے خلاف اس سے زیادہ تباہ کن چارج شیٹ اور ہوسکتی ہے ؟
اب سوال کہ اس کیس میں ہارا کون اور جیتا کون؟اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ کی ہارنے اور جیتنے سے کیا مراد ہے ؟اگر عمران خان کامقصد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں وزیر ِاعظم کوایکسپوز کرنا تھا تو وہ اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ آپ پانچ میں کس جج کی رائے کا مطالعہ کرتے ہیں(جسٹس کھوسہ کا نوٹ ادبی نقطہ نظر سے بہت پر لطف تحریر ہے ۔ اُن کے قلم نے رنگین لفظی تصویریں کھینچ کر رکھ دی ہیں)تو بلاشبہ نتیجہ یہی نکلتا ہے اپنے خاندان کے فلیٹس حاصل کرنے کے معاملے پر وزیر ِاعظم کی پیش کردہ وضاحت درست نہ تھی ۔ یہ اتنا بڑا دھچکا تھا کہ مسٹر زرداری بھی اُن کی طرف انگشت نمائی کرتے دکھائی دئیے ۔
وزیر ِاعظم اور ان کا کیمپ کس فتح کا جشن منارہے ہیں؟اگراُن کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ وزیر ِاعظم کو گھر نہ بھیجے ، جیسا کہ وہ اب کہہ رہے ہیں، توپھر وہ جیت گئے ہیں۔ پی ایم ایل (ن) کا خیال ہے کہ پاناما کیس کے دوران اٹھائی گئی ذلت سیاسی طور پر مہلک گھائو ثابت نہ ہوگی ۔ اگر نواز شریف 2018 ء کے عام انتخابات میںحصہ لینے کے لئے میدان میں موجود ہوں گے تو انتخابی فتح اخلاقی زک کا مداوا کردے گی ۔ سپریم کورٹ نے ایک کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں وزیر ِاعظم ممکنہ طور پر نااہل بھی ہوسکتے ہیں، لیکن ابھی ایسا ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ فی الحال پی ایم ایل (ن) اس لئے جشن منارہی ہے کیونکہ سیدھی آنے والی گولی سے نواز شریف بال بال بچ گئے ہیں۔
امریکی سپریم کورٹ کے جج، جسٹس اولیور ونڈل ہومز جونیئر نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا۔۔۔’’بڑے کیسز بھی مشکل کیسز کی طرح خراب قانون سازی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے کیسز کو بڑا اس لئے نہیں کہتے کہ اُن کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، بلکہ اس لئے کہ اُن کے ساتھ حادثاتی طور پر پیدا ہونے والی ایسی دلچسپی کا پہلو جڑا ہوتا ہے جو عوامی احساسات سے تو مطابقت رکھتا ہے لیکن فیصلے کو بگاڑ دیتا ہے ۔‘‘اگرچہ پاناما فیصلے نے ہر کسی کو کچھ نہ کچھ دے دیا ہے لیکن کوئی بھی اس سے مکمل طور پر خوش نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے فوری سیاسی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ جج حضرات کی رائے سے خاص طور پر وزیر ِاعظم کے مخالف کیمپ کی تسلی نہیں ہوئی ہے ۔
اگر سیاسی وابستگیوں اورجذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے معروضی انداز میں دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ درست ہے ۔ پاناما پیپرز نے وزیر ِاعظم کے بچوں کے اثاثوں کا انکشاف کیا تھا۔ اس پر اُنھوں نےطلسماتی کہانیاں سنانا شروع کردیں جن پر سپریم کورٹ سمیت پاکستان میں کسی نے یقین نہ کیا۔ دوسرا بیانیہ یہ تھا کہ وہ فلیٹس وزیر ِاعظم نے 90کی دہائی میں غیر قانونی طور پر خریدے تھے۔ ان معاملات کی ماضی میں بھی انکوائری ہوئی تھی لیکن بوجوہ کیس آگے نہ بڑھ سکا۔ موجودہ کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک آپشن یہ تھا کہ منتخب شدہ وزیر ِاعظم کوبدعنوانی کے الزامات، اور ان کے جواب میں سنائی گئی جھوٹی کہانی کی پاداش میں عہدے سے ہٹا دے، یا پھر مزید تحقیقات کی جائیں۔
اس طرح ہمارے پاس پاناما کیس میں پانچ انفرادی آراسامنے آئی ہیں۔ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن نے جسٹس اعجاز افضل کے نکالے گئے نتائج سے اتفاق کیا ۔ تاہم یہ اتفاق نتیجے پر ہے نہ کہ استدلال پر جو اس نتیجے تک پہنچنے کا باعث بنا۔اگرچہ جسٹس اعجاز افضل کی رائے گو اجتماعی رائے ہے ، لیکن اکثریتی فیصلے کو ایک طرح کا ’’کورٹ آرڈر‘‘قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس میں ایسی کوئی دلیل یا اکثریتی فیصلے کی سند نہیں ہے جو کوئی مثال بن سکے ۔ جسٹس آصف کھوسہ اور گلزار احمد کی آرا اکثریتی فیصلے اور ان اصولوں کے خلاف ہیں جن کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا۔
پاناما اسکینڈل نے عالمی توجہ حاصل کی تاکہ ریاست کی حکمران اشرافیہ کے چھپائے ہوئے اثاثوں کی چھان بین کی جاسکے ۔ اس طرح پاناما کیس بڑی حد تک ایک جمہوری ریاست میں وزیر ِاعظم کے احتساب اور عدلیہ کی طاقت کااظہار تھا۔ تاہم ، ہم نے اس کے نتیجے میں وزیرِاعظم کو گھر جاتے تو نہیں دیکھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثریتی بنچ کی رائے تھی کہ اگر نامکمل حقائق کو بنیاد بناکر ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت گھر بھیج جائے تو یہ ایسی آئینی مہم جوئی ہوتی جس کی آئین حمایت نہیں کرتا ہے ۔ قوانین اور آئینی شقوں پر جج حضرات کی مختلف آرا کیسے تشکیل پاتی ہیں، اس کا اظہار جسٹس اعجاز افضل کی رائے سے واضح طریقے سے ہوتا ہے ۔ جج صاحب لکھتے ہیں۔۔۔’’بچوں ، اگر وہ زیر ِ کفالت نہیں،کے اثاثے ظاہر کرنے کی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے ۔ اگر زیر ِ کفالت اولاد کے اثاثے عوامی عہدہ رکھنے والے شخص کی اعلانیہ اور ظاہر کردہ آمدن سے بہت زیادہ ہوں تو پھر یہ جرم تحقیقات کے لئے نیب کے سپرد کردیا جائے گا۔ اس طریق ِ کار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ آئین کے آرٹیکل 62کے تحت نااہلی کی سزا سپریم کورٹ کی بجائے ایک تحقیقات کرنے والی عدالت دے گی۔‘‘
جج صاحب وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں… ’’کون نہیں جانتا کہ بیان ِ حلفی دیتے ہوئے سنجیدگی سے سچ بولنے کا اقرار کیا جاتا ہے ، سوال و جواب سے اس اقرار کی پرکھ ہوتی ہے ، قانون ِ شہادت حقائق کی جانچ کرتا ہے، اور یوں قانون اپنا راستہ بناتا ہے ۔ ہم کسی افرادی کیس میں اس طریق ِکار سے روگردانی نہیں کرسکتے ۔ یہ طریق کار ہم نے صدیوں تک خون پسینہ ایک کرکے طے کیا ہے ۔ ‘‘
جے آئی ٹی نے بنیادی طور پر دو معاملات کی تحقیقات کرنی ہے ۔ ایک یہ کہ کیا وزیر ِاعظم کی پاکستان سے باہر ایسی جائیداد ہے جو اُن کی معلوم آمدنی کے لحاظ سے بہت زیادہ ہو؟کیا اُن کے بچوں کے اثاثے انفرادی طور پر قانونی ذرائع سے کمائی گئی دولت ہیں؟اگر اس مرحلے پر شریف فیملی حیران کن طریقے سے کوئی قابل ِ یقین ثبوت فراہم نہ کرسکی تو جے آئی ٹی کا نتیجہ واضح ہے ۔جب جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ مرتب ہوگی تو اس کے بعد ایک نیا بنچ تشکیل پائے گا۔ سپریم کورٹ ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز بن جائے گی۔ نئے بنچ کے سامنے ایک مرتبہ پھر دو آپشن ہوں گے ۔ کیا آرٹیکل 62 کے تحت 184(3) کے اختیارات استعمال کیے جائیں یا پھر اکثریتی رائے کی پیروی کرتے ہوئے کیس نیب کے پاس بھیج دیا جائے ۔ جوبھی ہو، ایک بات طے ہے کہ پاناما کیس شریف فیملی کی جان نہیں چھوڑے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ 2018ء تک ہمارا سیاسی میدان گرم رہے گا۔



.
تازہ ترین