• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن دنوں پاکستان میں پاناما کیس خبروں کی زینت بنا ہوا تھا ، انہی دنوںفرانس میں صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ہمارے میڈیا کو چونکہ پا ناما جیسے اہم مسئلہ سے فرصت نہیں تھی شاید اسی لئے اس الیکشن کا تذکرہ محض سرسری انداز میں ہی کیا گیا ۔ٹی وی چینلز کو بھی اس الیکشن میں کامیاب ہونے والے ایمانیول میکرون کی جیت کے کسی پہلو کے بارے میں اگر تجسس تھا تو صرف اس بات کا کہ انتالیس سالہ ممکنہ فرانسیسی صدر نے اپنے سے کئی سال بڑی عمر کی عورت سے شادی کیونکر کی اور یہ کہ ان کی اہلیہ ان کی ہائی اسکول ٹیچر تھیں۔ اس اہم خبر کے بارے میں تو ٹی وی ناظرین کو بار بار بتایا گیا لیکن اس بات کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ صدارتی دوڑ میں ایک آئوٹ سائیڈر کی طرح داخل ہونے والے میکرون کیسے 23.7 فیصد ووٹ حاصل کر کے، فرانس کے عوام کی پہلی پسند بن گئے۔
ایمانیول میکرون نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز تو فرانس کی سوشلسٹ پارٹی سے کیا لیکن صدارتی انتخابات کے لئے انہوں نے ایک نئی سیاسی پارٹی ـ" این مارشے " کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا،جس کے معنی " آگے بڑھنے " کے ہیں۔ میکرون کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام نے عوام کو کچھ نہیں دیا اس لئے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔میکرون ، فرانس کی عرب دنیا کے حوالے سے مشکلات کا ذمہ دار colonialism کو سمجھتے ہیں اور ان کی مہم سے اسلام، سیکورٹی اور دہشت گردی کے الفاظ تقریباََ ناپید رہے ہیں۔ اپریل دو ہزار سولہ میں بننے والی اس پارٹی نے انتالیس سالہ میکرون کو ٹھیک ایک سال بعد ہی صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کامیابی سے ہمکنار کروا دیا۔ میکرون سوشلسٹ پارٹی کے دور حکومت میں معاشی امور، انڈسٹری اور ڈیجیٹل افیئرز کے وزیر بھی رہے لیکن دو ہزار سولہ میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس صدارتی انتخاب میں سوشلسٹ پارٹی کو بہت بری شکست کا سامنا کرنا پڑا، چند فیصد ووٹوں کے ساتھ جہاں سوشلسٹ پارٹی پانچویں پوزیشن پر تھی وہیں اس کی روایتی حریف ریپبلکن پارٹی بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ حاصل کر سکی۔ انتخابات سے قبل فیورٹ تصور کئے جانے والے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار فرانسس فیلن پر اپنے بیوی بچوں کو پرکشش نوکریاں دلانے کے الزامات نے ان کی انتخابی مہم کو بری طرح متاثر کیا۔انتخابات کے انتہائی قریب آنے والے اس اسکینڈل نے فیلن کے سیاسی مستقبل کو اختتام پذیر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیااور انہوں نے انتخابات میں تیسری پوزیشن حاصل کی جس کی بنیاد پر وہ اب مئی میں ہونے والے انتخابات کے دوسرے مرحلے سے باہر ہو گئے ہیں۔
ان انتخابات میں 76لاکھ ووٹ لے کر دوسری پوزیشن فرنٹ نیشنل کی میرین لی پین نے حاصل کی۔ میرین لی پین کی جماعت فرانس کے ایک انتہائی دائیں بازو کے ایسے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جس کی نظر میں فرانس میں باہر سے آنے والے افراد خصوصاََ مسلمانوں کی وجہ سے فرانس کی اصل آبادی کو بہت نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ لی پین اور ان کی جماعت اس سے قبل چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حاصل کرتی رہی ہے، لیکن اس بڑے پیمانے پر اس سے قبل ووٹ لینے میں ناکام رہی تھی۔ فرنٹ نیشنل کی سربراہی اس سے قبل لی پین کے والد جین میری لی پین کے پاس تھی ، جن کے دور میں شدید نسل پسندانہ رویئے کے باعث اس جماعت کو عوام میں کچھ خاص مقبولیت حاصل نہ ہو سکی ۔ لیکن ان کی صا حبزادی نے اس روایت کو تبدیل کر کے دکھا دیا۔ لی پین کی کامیابی کی شاید سب سے بڑی وجہ شام میں خانہ جنگی کے بعد یورپ کو درپیش آنے والی صورتحال ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں مسلم پناہ گزینوں کے یورپ کے مختلف ممالک میں داخلے کے بعدوہاںموجود نسلی اور مذہبی منافرت پھیلانے والی جماعتوں کو پذیرائی ملنا شروع ہو گئی۔ حالات کو مزید خراب کرنے میں جرمنی، فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ یورپ میں بسنے والے بہت سے افراد جو پہلے شاید مسلمانوں سے خوفزدہ نہ تھے وہ بھی پیرس ،نیس اور برلن میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کے بعد مسلمانو ں کے حوالے سے نسلی تعصب برتنا شروع ہو گئے۔ ایسے حالات میں لی پین کی نیشنل فرنٹ کے لئے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو مین اسٹریم میں لے آئیں۔ لی پین نے جہاں مسلمانوں کے بارے میں اپنے تعصبات کا کھل کر اظہار کیا وہیں اس نے فرانس کی یورپی یونین میں موجودگی کے بارے میں بھی سوالات اٹھا دیئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے دنیا بھر کے ممالک میں ایسی سیاسی جماعتیں جو اس سے قبل سیاسی طور پر کنارے پر لگا دی گئی تھیں اب سمندر میں واپس آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہی نیدرلینڈ میں ہونے والے انتخابات میں بھی انتہا پسندانہ خیالات رکھنے والے گیرت والڈرز کی جماعت نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ آج سے چند سال قبل تک گیرت والڈرز کے بارے میں کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتاتھا کہ وہ یا ان کی جماعت نیدرلینڈ میں حکومت کا حصہ بن پائیں گے۔
فرانس کے انتخابات میں پہلی اور دوسری پوزیشن پر آنے والے افراد فرانس کی روایتی سیاسی پارٹیوں سے نہیں ہیں۔ یہ کوئی حسن اتفاق نہیں ہے، پچھلے چند سالوں میں ہونے والے بہت سے انتخابات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ دنیا بھر میں عوام اب روایتی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ہو یا پھر نیڈرلینڈ کا گیرت والڈر، بہت سے ممالک میں عوام کی اکثریت اب اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ روایتی سیاستدانوں کا مقصد صرف اقتدار کی باریاں لینا ہی رہ گیا ہے ۔وہ عوام کے مسائل کے حل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے اسی لئے ان کی بجائے نئے لوگوں کو موقع دینا چاہئے۔ ان نئے سیاستدانوں پر پرانے سیاسی نظام کے قواعد بھی لاگو نہیں ہوتے، اسی لئے وہ اپنے مخالفین کے بارے میں نازیبا گفتگو سے لے کر نسل پرستانہ رویہ روا رکھنے تک کچھ بھی کر اور کہہ سکتے ہیں۔
فرانس میں چونکہ جمہوری روایات کافی پرانی ہیں اسی لئے شاید اس بار لی پین فرانس میں وہ نہ کر سکیں جو ٹرمپ نے امریکہ میں کر دکھایا ہے۔ ابھی تک آنے والی اطلاعات کے مطابق فرانس کی تمام مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں لی پین اور اس کی جماعت کے خلاف میکرون کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ ریپبلکن پارٹی کے بہت سے ووٹرز کی جانب سے لی پین کو ووٹ دیئے جانے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر بھی میکرون دوسرے مرحلے میں لی پین کو با آسانی شکست دیتے نظر آرہے ہیں۔ اس بار شاید فرانس انتہائی دائیں بازو کی جماعت کی حکمرانی سے بچ جائے گالیکن دنیا بھر میں روایتی سیاسی جماعتوں او ر شخصیات کے لئے آنے والے دن کچھ زیادہ روشن دکھائی نہیں دے رہے۔



.
تازہ ترین