• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پر آشوب زمانوں میں اعلیٰ ادب بھی لکھا جاتا رہا ہے اور نئی فکر اور انقلابی تحریکوں نے بھی جنم لیا ہے ۔ عالمی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ نے والے انقلا بات کا آغاز معاشرے کے پڑھے لکھے افراد کے ذہنوں میں پلنے والی سوچ سے ہوتا ہے۔ پھر اس سوچ کو سیاسی عمل میں تبدیل کرنے والی تحریک یاجماعت یا قیادت کارول بھی ضروری ہے۔ آپ فرانس کے انقلاب کی بات کریں یا روس اور چین کے گزشتہ صدی کے انقلابات کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی ہمہ گیر تبدیلی کی آبیاری کس طرح کی جاتی ہے۔ ایران کا انقلاب تو اسلامی تھا لیکن ایرانی عوام کی سوچ کو نئے خیالات اور نئی تحریروں نے سیاسی عمل کے لئے بیدار کیاتھا ۔ چلتے چلتے بس ایک نام علی شریعتی کا لے لوں ۔ یوں میں اپنے اس خیال کا اظہار کررہا ہوں کہ پاکستان کے حالات کتنے ہی انقلابات سے پہلے کے معاشروں جیسے کیوں نہ ہوں۔ ہماری فکری اور اخلاقی پسماندگی کسی ترقی پذیر تبدیلی کے راستے میں ایک رکاوٹ بن گئی ہے۔ اگر آپ بڑی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں اور ان کے رہنمائوں کی ذہنی صلاحیت کو پرکھنے کی کوشش کریں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کا دل بیٹھنے لگے گا ۔ یعنی نہ تو کوئی معاشرتی ، تہذیبی، علمی یا ادبی ہلچل دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا سیاسی رہنما کہ جس کے بارے میں آپ کو شک ہو کہ اس نے کتابیں پڑھی ہیں اور اسے تاریخ کا علم ہے اور وہ کلاسیکی ادب سے واقف ہے اور اس کے بیانات کسی گہری فکر اور حالات کی پیچیدگی کو سمجھنے کا پتہ دیتے ہیں۔ یہی نہیں ، ان رہنمائوں یا ان کی جماعتوں کا ایسے مفکروں اور ماہرین سے بھی بظاہر کوئی رشتہ نہیں جو ان کے لئے باقاعدہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوں۔ اب ان حالات میں کوئی کسی نئے بیانیے کی بات بھی کرے تو اس سے کیا حاصل !
یہ تمہید محض اسلئے کہ ذرا اپنے موجودہ سیاسی اور سماجی ماحول پر ایک نظر ڈال کر تو دیکھیں کہ کیاہورہا ہے۔ میڈیا کے بارے میں یہ شکایت بجا ہے کہ اس نے ہمارے ذہنی خلفشار میں اضافہ کیا ہے اور حالات کی ماہرانہ خبر گیری اس کے بس کی بات نہیں لگتی پھر بھی ، کئی واقعات ایسے ہیں جو کبھی چیخ چیخ کر اور کبھی بڑی سرخیوں میں چھپ کر، سرگوشی میں آپ کو زمینی حقائق کا پتہ دیتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں پاناما کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کی گرمی میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ موسمیاتی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے میدانی علاقوں کی دھوپ میں شاید جذبات اور خیالات بھی جھلس جاتے ہیں۔اب یہ ایک اتفاق ہے کہ ان گرمیوں میں عمران خان کی تحریک انصاف اور آصف زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کے لئے احتجاج کی تحریک شروع کی ہے۔ اس ہفتے کی ایک بڑی خبر عمران خاں کا یہ الزام ہے کہ انہیں پاناماکیس کے بارے میں خاموش رہنے کے لئے10ارب کی رشوت پیش کی گئی تھی ۔ اس الزام کی تپش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور نواز شریف نے اس پر توہین عدالت کی درخواست دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایک سطح پر آپ اسے بھی ایک سیاسی تماشہ سمجھیں۔ لیکن یہی سیاست داں تو پاکستان کی تقدیر کے رکھوالے ہیں۔ یہ سوچ کر دل لرز جاتا ہے کہ یہ رہنما ہمارے دکھوں کا کیسے مداوا کرسکتے ہیں۔ ویسے میں صرف سیاست دانوں کو موردالزام ٹھہرانے کا قائل نہیں ہوں۔ ہماری تقدیرقومی سلامتی کے ان خیالات سے متاثر رہی ہے جن کی تشکیل مقتدر حلقوں نے کی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں قوم کی سمت کا تعین کرنے کی فکری اور عملی کاوش کے قابل دکھائی نہیں دیتیں۔
ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہمار ے موجودہ حالات کسی انقلاب کا پیش خیمہ ہیں؟ یعنی کیا وہ تمام علامتیں موجود ہیں جو دوسرے معاشروں میں ہمہ گیر سماجی انقلاب سے پہلے ظاہر ہوتی رہی ہیں ؟ میں نےانقلابی تبدیلی کے بارے میں دوتین کتابیں ضرور پڑھی ہیں لیکن اس سوال کا جواب سماجی علوم کے ماہرہی دے سکتے ہیں۔ پتہ نہیں ایسے ماہر ہمارے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں کتنے ہیں اور اگر ہیں بھی تو کیا کوئی ان سے بات بھی کرتا ہے۔ یہ تو دکھائی دے رہا ہے کہ معاشرہ بکھرتا جارہا ہے۔ اپنا توازن کھورہا ہے۔ یہ میں نے پڑھا ہے کہ اگر سڑکوں پر باوردی اور مسلح اہل کار زیادہ دکھائی دیںتواس سے اقتدار کی قوت نہیں بلکہ بے بسی کا اظہار ہوتا ہے۔جرائم میں اضافہ بھی ایک علامت ہے۔ عوام کی ذہنی صحت اور توہم پرستی کی کیفیت کوبھی اہم سمجھا جاتا ہے ۔ حال ہی میں ایک دوخبریں یہ آئیں کہ محافظوں نے اپنے مالکوں کوقتل کردیا تواسے آپ خطرے کی ایسی گھنٹی تصور کریں جو سوئے ہوئے ذہنوں کو جگا سکتی ہے۔ لیکن ہمارے حکمراں اور سیاسی رہنما ، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔ میں گزرے ہوئے زمانے کے انقلابات کا حوالہ دے رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نئی دنیا جس میں ہم جی رہے ہیں کئی مخصوص سماجی محرکات کے تابع ہو۔ خود ہمارا معاشرہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سبب ایک نئی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ ہر انقلاب کا پرچم نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے خواہ اس کی فکری باگ ڈور کہیں بھی ہو پاکستان تو حیرت انگیز طور پر نوجوانوں کا ملک ہے۔ یہ نوجوان کیسے ہیں۔ کیا کرتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں یہ کسی بھی سرکاری یونیورسٹی کے کیمپس کو دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں۔ مشال خاں کے قتل کی کہانی کے کئی پہلو ہیں لیکن جو کچھ ہم دیکھ اور جان چکے ہیں اس سے سیاسی جماعتوں کی بے تعلقی اس قتل سے بھی زیادہ غور طلب مسئلہ ہے۔ اس ہفتے میں نے کراچی یونیورسٹی کے کیمپس پر ایک سیمینار میں شرکت کی جوذوالفقار علی بھٹو کے موضوع پرتھا۔ مجھے یہ موقع ملا کہ میں موجودہ صورت حال کے حوالے سے دو خاص باتوں کا ذکر کرسکوں۔ ایک تو یہ کہ ان کی سیاست کے بارے میں آپ کچھ بھی کہیں، بھٹو ایک ذہین، پڑھے لکھے ، انتھک محنت کرنے والے سیاست دان تھے ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے نوجوانوں بلکہ طالب علموں کی ذہنی بیداری کواپنی تحریک کا حصہ بنایا۔ یہ بات میں کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کا ہر نیا لیڈر بھٹو بننے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن بھٹو کی ذہنی صلاحیت سے مسلح کوئی لیڈر سیاسی میدان میں نظر نہیں آتا ۔ نوجوانوں کی صورت حال بھی اتنی ہی دلخراش ہے۔ یہ مفلسی ایک ایسے وقت ہماری قسمت بن گئی ہے جب حالات کسی ایسے رہنما کا مطالبہ کررہے ہیں جو، ایک ایسی انقلابی تحریک کا آغاز کرے جوایک نئے سماج بلکہ ایک نئے ملک کو وجود میں لاسکے۔ اب ہم کس رہنما کو کتنی رشوت دیں کہ وہ سماجی تبدیلی کے اسرارورموز کو سمجھنے کی کوئی کوشش تو کرے ۔



.
تازہ ترین