• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1999 میں جب میں نے پشاور میں این این آئی کے بیوروچیف کی حیثیت سے صحافت کا آغاز کیا تو میں واحد صحافی تھا جو کھل کر افغان طالبان کے خلاف بولتا تھا اور اس مخالفت کی جتنی قیمت ادا کی وہ میرا رب یا پھر میرے قریبی دوست جانتے ہیں۔ میں تب ریڈیو تہران کے لئے بھی پشاور سے رپورٹنگ کرتاتھا اور اس وجہ سے بھی طالبان میرے مخالف تھے۔ میں طالبان حکومت کے ویزے پر افغانستان گیا لیکن واپسی پر مجھے گرفتار کرکے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا۔ میرے دوست اعظم خان (ڈاکٹر فاروق خان کے چھوٹے بھائی ) میرے ساتھ تھے اور وہ گواہ ہیں کہ طالبان کی قید میں کس طرح ہم کئی روز تک ہر لمحہ موت کا انتظار کرتے رہے اور یہ کہ دوران حراست ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوتا رہا۔ معروف صحافی اور ہمارے استاد رحیم اللہ یوسفزئی اور میرے بھائی میجر (ر) عامر کو اس پورے قصے کی روداد معلوم ہے اور ان دونوں کی کوششوں اور اس وقت کے وزیرخارجہ سرتاج عزیز کی مداخلت پر ہمیں رہائی اور دوسری زندگی ملی ۔ نائن الیون کے بعد پاکستانی سیاستدانوں اور دانشوروں کی اکثریت جنرل پرویز مشرف کے فیصلے کو مسئلے کی جڑ قرار دیتی رہی لیکن میں ان چند صحافیوں میں شامل تھا کہ جو اس یوٹرن کو نہیں بلکہ اس کے بعدکے ڈبل گیم کو مسئلے کا جڑ قرار دیتے رہے ۔ جب افغان طالبان کے بطن سے جنم لے کر پاکستان میں طالبانائزیشن شروع ہوئی تو میں ان چند لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے وزیرستان میں طالبان اور القاعدہ کے جمع ہونے پر چیخ و پکار کی ۔ ڈان پشاور کے ایڈیٹر اسماعیل خان اور اس وقت کے سیکرٹری سیکورٹی بریگیڈئر (ر) محمود شاہ گواہ ہیں کہ کس طرح ہم دونوں جاکر اس وقت کے گورنر جنرل افتخار حسین شاہ اور دوسرے لوگوں کی منتیں کرتے رہے کہ ان لوگوں کو روکا جائے ۔ بٹ خیلہ پریس کلب میں میری اس تقریر کی ویڈیو موجود ہے کہ جس میں 2006 ء کے دوران میں نے متنبہ کیا کہ سوات کو دوسرا وزیرستان بنایا جارہا ہے اور جب جواب میں اس وقت کے جماعت اسلامی کے صوبائی وزیر شاہراز خان نے میرے ساتھ الجھ کر میرے اس خدشے کو بے بنیاد قرار دے کر مجھ پر لعن طعن کی تومعاملہ توتو میں میں اور ہلڑبازی کی طرف چلا گیا۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیاں شروع ہوئیں تو ہمارے بعض سیاسی قائدین اور میڈیا کے بعض بڑے بڑے نام بلیک واٹر ،بلیک واٹر کا شور مچا کر قوم کو گمراہ کرتے رہے کہ یہ کارروائیاں کرنے والے پاکستانی طالبان نہیں بلکہ بلیک واٹر والے ہیں لیکن میرے کالم اور ٹی وی پروگرام گواہ ہیں کہ میں ہی یہ باور کراتا رہا کہ پیچھے جو بھی ہو لیکن کرنے والے یہی طالبان ہیں ۔ تب میں طالبان کے بھی نشانے پر تھا اور ملک کے اندر مذہبی جماعتوں کے فتووں کی زد میں بھی ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ طالبان کی کمر ڈرون حملوں نے توڑی ہے لیکن ڈرون حملوں کے خلاف میں نے نہیں کچھ اور لوگوں نے مہم چلائے رکھی ۔ڈرون حملے ہی کے نتیجے میں بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر میں نہیں بلکہ کچھ اور لوگ ماتم کناں تھے۔ میرے ڈاکٹر فاروق خان جیسے عزیز دوست اور بھائی کو طالبان نے اپنے بیانئے کو چیلنج کرنے اور سوات کے بچوں کے لئے یونیورسٹی کے قیام کی کوشش کے’’ جرم ‘‘میں شہید کردیا اور وہ صحافی یا اینکرزجن کو احسان اللہ احسان کے ساتھ میرے انٹرویو پر آج بڑی تکلیف ہورہی ہے ، اس وقت طالبان کو ڈاکٹر فاروق خان اور میرے خلاف ورغلاتے رہے ۔ میرے کیمرہ مینوں کے سوا دو اور بندے گواہ ہیں کہ اس روز میں نے احسان اللہ احسان کے سامنے قرآن کی آیت ’’وتلک الایام نداولھابین الناس ‘‘تلاوت کرکے وہ چھ سات مواقع یاد دلائے جب انہوں نے مجھے دھمکیاں دی تھیں ۔ کوئی تشہیر کرتا ہے اور کوئی نہیں لیکن میرے سارے قریبی دوست جانتے ہیں کہ انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے اس عفریت کی وجہ سے میں 1999 ء سے لے کر آج تک سر ہتھیلی میں لئے پھر رہا ہوں اور آج بھی میرا سب سے زیادہ خرچہ سیکورٹی کا ہے۔ ہمارے ساتھ تو ایسا بھی ہوتا رہا کہ جب بیت اللہ محسود سے باغی ہوجانے والے زین الدین محسود کا انٹرویو ہمارے ایک رپورٹر نے جیو کے لئے ریکارڈ کرایا تو اس رپورٹر کی زندگی کی خاطر جیو نے اس رپورٹر کی شناخت ظاہر نہیں کی ۔ اگلے دن ہمارے ایک اینکر نے جو اس وقت بیت اللہ محسودکے ساتھ رابطے میں تھے، کو یہ باور کرایا کہ وہ انٹرویو سلیم صافی اور ثناء بچہ نے کروایا ہے ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف بیت اللہ محسود میرا جانی دشمن بن گیا بلکہ اگلے روز فون کرکے مجھے دھمکیاں بھی دیں ۔ احسان اللہ احسان جس تنظیم کے ترجمان تھے ، اس نے کسی اور اینکریا صحافی کے نہیں میرے مہمند قبیلے کو دربدر کیا، میرے قبیلے کے ہزاروں لوگ مارڈالے ، میرے قبیلے کےبچوں کے اسکولوں کو اڑادیا ۔ اب اگر اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے اینکرز کو ان سے ہمدردی نہیں ہوسکتی تو مجھے کیسے ہوسکتی ہے ، ہاں البتہ میں ان کی طرح اس ایشو پر اپنی صحافت چمکانا یا پھر مفت میں ہیرو نہیں بننا چاہتا ۔ میں میدان صحافت میں اپنی بقا کی جنگ کے ساتھ ساتھ سنجیدگی کے ساتھ دہشت گردی کے اس عذاب سے بھی اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو نکالنا چاہتا ہوں ۔ میرے کالم گواہ ہیں کہ میں نے شکئی معاہدے کی مخالفت کی ، سوات معاہدے کی مخالفت کی ، شمالی وزیرستان معاہدے کی مخالفت کی لیکن سوال یہ تھے کہ تب یہ لبرل فاشسٹ کہاں تھے۔ دو دن مسلسل وزیراعظم نوازشریف نے بلایا اورہر طرح کا دبائو ڈالا لیکن میں طالبان کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کا حصہ بننے پر آمادہ نہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ یہ طالبان مخالف بقراط اس وقت کہاں تھے کہ جب شکئی میں نیک محمد کو ہار پہنائے جارہے تھے اور جب سوات میں اے این پی کے وزراء طالبان کے نرغے میں ان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کررہے تھے ۔ میں تو سب کے خلاف بولا تھا۔ عسکریت پسندوں کو جب ریاست کمزور پوزیشن سے رعایت دیتی ہے تو ا س سے فساد جنم لیتا ہے لیکن جب مضبوط پوزیشن سے دیتی ہے تو اس سے خیر برآمد ہوتا ہے ۔ پرویز مشرف، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ادوار میں طالبان کے ساتھ جو بھی رعایتیں دی گئیں وہ کمزور اور دفاعی پوزیشن سے دی گئیں لیکن اب پہلی مرتبہ ریاست مضبوط پوزیشن میں ہے ۔جس دن پاکستان میں احسان اللہ احسان کے انٹرویو کا تنازع گرم تھا ، اس دن تیس سال تک افغان حکومت سے لڑنے والے گلبدین حکمتیار افغانستان کے صوبہ لغمان پہنچے ۔
ان کو ہار پہنائے جارہے تھے۔ ان کے ساتھ معاہدہ افغان حکومت نے کیا ہے اور اسے امریکی تصدیق بھی حاصل ہوئی ہے ۔ وہاں تو کسی نے اس پر شور نہیں مچایا ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قوموں اور ریاستوں کو بڑے مقاصد کے لئے بعض اوقات اسی طرح کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔ یہاں بھی حقیقت یہ ہے کہ 2014 ء کے اواخر میں تحریک طالبان پنجاب کے امیر عصمت اللہ معاویہ نے ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا اور پاکستان آکر ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کا آغاز کردیا۔یہ سب عمل اس وزیراعظم کی منظوری سے ہوا جس نے ہمارے دوست ابصار عالم کو پیمرا کا چیئرمین مقرر کیا ہے ۔ مجھ سمیت کسی اینکر نے اس پر اعتراض اٹھایا اور نہ طوفان کھڑا کیا۔ کسی سیاسی جماعت کا مخالفانہ بیان آیا اور نہ کسی لبرل دانشور نے شور مچایا۔ چنانچہ ان کی دیکھا دیکھی اور آپریشن ردالفساد کے دبائو میں آکر گزشتہ چند ماہ کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں ٹی ٹی پی کے لوگ سرنڈر ہوئے ۔ احسان اللہ احسان کا سرنڈر بھی اس سلسلے کی کڑی ہے ۔ ان کے سرنڈر کا اعلان ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ ہفتے کیا۔ پھر جب آئی ایس پی آر کی طرف سے ان کی ویڈیو آئی تو سب نے اس کو بڑی کامیابی سے تعبیر کیا لیکن اب جب ان کے ساتھ میرے انٹرویو کا معاملہ آگیا تو کسی کو نیشنل ایکشن پلان یاد آگیا تو کسی کے پیٹ میں یہ احسان اللہ احسان کے ہیرو بن جانے کے خطرے کا مروڑ اٹھنے لگا ۔ اور تو اور جنرل محمد ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق نے بھی ٹویٹ کرکے طعنہ دیا کہ ایک دن کا دہشت گرد ، دوسرے دن ٹی وی پروگرام میں کیسے بیٹھتا ہے ۔ پیمرا ہوکہ مخالفت کرنے والے اعتراض اٹھانے والے اینکرز یا صحافی ، اس معاملے میں سب کی اخلاقی پوزیشن وہی ہے جواس معاملے میں جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کی ہے ۔ احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان میں اگر یہ اعتراف ہے کہ ان کی تنظیم کو ’’را‘‘ اور این ڈی ایس سپورٹ کر رہی ہے تو انٹرویو میں اس کی تفصیل اور دلیل موجود ہے ۔ وہاں اگر یہ اعتراف ہے کہ اصل مدعا جہاد نہیں بلکہ طاقت اور پیسہ ہے تو انٹرویو میںاس کی تفصیل دیکھنے کو ملتی ہے ۔ پاکستانی وزارت خارجہ احسان اللہ احسان کے اعترافات انڈیا اور افغانستان کے خلاف عالمی فورم پر اٹھانا چاہتی ہے تو کیا عالمی فورم پر اعترافی بیان کے مقابلے میں اس انٹرویو کی وقعت زیادہ نہ ہوتی ۔ یہ کیسا عجیب ملک ہے کہ جہاں عزیر بلوچ اور براہمداغ بگٹی کا انٹرویو نشر کرنا تو اعزاز ہے لیکن ریاست کے سامنے سرنڈر ہونے والے طالبان رہنما کے اعترافات پر مبنی انٹرویو نشر کرنا جرم ہے ۔ جہاں بلوچ دہشت گرد کو ریاست ہار پہنائے تو واہ واہ لیکن مذہبی عسکریت پسند ہتھیار ڈالے تو انہی لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگ جاتا ہے کہ جو بلوچ عسکریت پسندوں کو ناراض بھائی کہتے ہیں اور جو عزیر بلوچ کے سرپرست اعلیٰ آصف علی زرداری کو قوم کامسیحا باور کراتے رہتے ہیں ۔ جہاں پنجابی طالبان کی امیر عصمت اللہ معاویہ سے متعلق تو خاموشی ہو (میں خود بھی اس کے سرنڈر اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے حق میں ہوں ) لیکن پختون احسان اللہ احسان کے ساتھ وہی سلوک ہو تو اس پر قیامت برپا ہو۔ میں تو اس اصول اورنظریے کا حامی ہوں کہ ریاست کا سلوک اور قانون سب کے لئے ایک ہونا چاہئے ۔ تبھی تو عرض کرتا ہوں کہ صرف طالبان نہیں اگر بلوچ یا مہاجر بھی اپنی غلطی مان کر بندوق کا راستہ ترک کرنا چاہتا ہے تو اسے بھی گلے لگا لیا جائے ۔ریاست کو چیلنج کرنے والے اور معصوموں کا خون کرنے والے ہر ملزم اور مجرم سے یکساں سلوک کیا جائے ۔ خواہ وہ براہمداغ بگٹی ہویا پھر احسان اللہ احسان ۔میں تو ریاست کی طرف سے بھی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تفریق کا مخالف ہوں لیکن میڈیا اور دانشوروں کی طرف سے بھی ریاست کو چیلنج کرنے والوںاور معصوم پاکستانیوں کو قتل کرنے والوںکو گڈ اور بیڈ میں تقسیم نہیں کرنا چاہئے ۔ جہاں تک میرے خلاف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جاری مہم کا تعلق ہے تو الحمدللہ میرے پاس ہر اعتراض کا جواب ہے اور ہر معترض کی حقیقت جانتا ہوں لیکن فی الحال خاموشی سے انجوائے کررہا ہوں ۔خاموشی کی وجہ میرے نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ حاسد کے لئے یہ سزا کافی ہے کہ وہ اپنے حسد میں جلتا رہے۔



.
تازہ ترین