• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک جمہوریت پسند ہونے کے ناتے بعض آڈیو بیپرز (ٹاک شوز میں ٹیلی فون کے ذریعے شرکت کرنے والے حضرات) کے انٹرویوز مجھے شدید بور کرتے ہیں۔ متذکرہ شعلہ بیانوں میں وہ ریٹائرڈ حضرات شامل ہیںجویوں تو پنشن وصول کررہے ہوتے ہیں لیکن ان کے لب ولہجے کی کھنک اور رُعب ایسے ہوتا ہے جیسے وہ حاضرسروس ہوں اور اب بھی باقاعدگی سے ماہانہ محنتانہ وصول کررہے ہوں ۔بطور ایک محب وطن پاکستانی میں یہ ضرورچاہتا ہوں کہ ’’نیوز لیکس‘‘ کے کردار اور اس میں ملوث اصل افراد کو پاکستان کے آئین اورقانون کے مطابق سزاملے ،لیکن اس وقت مجھے شدید ذہنی کوفت ہوتی ہے جب کسی ٹاک شوز کا اینکرپرسن ،دوسری طرف گھر بیٹھا کوئی ریٹائرڈشخص اور نوواردتجزیہ نگار منتخب وزیر اعظم کا’’کورٹ مارشل ‘‘کرکے دم لیتے ہیں۔ معروضی سیاسی حالات اور میڈیا پر مچائے گئے غدر کو غالب کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کیجئے۔میرزا کہتے ہیں
نوید ِامن ہے بیداد ِدوست جاں کے لئے
رہی نہ طرز ِستم کوئی آسماں کے لئے
سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ پارلیمان سے وابستگی کسی بھی شخص کو یہ لائسنس جاری نہیں کرتی کہ وہ اس ملک کے غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کرے ۔کیا یہ عزت افزائی ہے کہ نابالغ بچوں کے نام بیرون ملک اربوں کی جائیداد کا انکشاف ’’پانامہ کیس ‘‘ کے ذریعے ہو؟؟؟ تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ وطن عزیز کی تہذیب ومعاشرت کی اساس سنہری اصولوں پر رکھی گئی تھی مگر لیاقت علی خان کے قتل اسکندرمرزا اور جنرل ایوب خان کے درمیان اقتدار کے لئے رسہ کشی کے نتیجہ میں 1958کے پہلے مارشل لانے جڑوں میں یہ نسخہ ہائے کیمیارکھ دیاتھاجس کا عنوان تھاکہ’’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ‘‘۔ حصول اقتدار کیلئے سازشیں تو روز اول سے شروع ہوگئی تھیں مگر کرپشن اس وقت تک صرف رینگ رہی تھی ، پھر جنرل ضیا الحق کے دور سے معاشرے میں باقاعدہ دولت اکھٹا کرنے کی ایک میراتھن کا آغاز ہوا جو جاری وساری ہے۔آج کے حکمران اور اپوزیشن کے متعدد کرداراسی فیکٹری سے مینوفیکچر کئے گئے جو یہ قومی فریضہ سرانجام دے رہی تھی۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے قائدین شریف برادران کے سیاسی کولمبس بھی جنرل ضیاالحق ہی تھے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دوسری طرف شریف برادران کے آخری سیاسی مخالف شیخ رشید کاتعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ ایک طرف تو وہ شعلہ بیان ہیں جو سیاستدانوں کی کردار کشی کرکے پارلیمان کو بے وقعت کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ،دوسری طرف وہ جمہوری چیمپئن دکھائی دیتے ہیں جو قوالوں سے بھی اونچے سُروں میںجمہوریت کی قوالی کرتے تھکتے نہیں ہیں۔قومی فلم کی ٹریجڈی ہے کہ ایک طرف ہمارے بعض اداروں کو مقدس گائے بنا کر پیش کیاجاتاہے ، دوسری جانب پارلیمان سے وابستہ افراد کے لئے گوتم سدھارتھ المعروف بدھاہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ سے لے کر پانامہ اورڈان لیکس تک کوئی بھی معاملہ بلیک اینڈوائٹ میں عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا۔عمران خان یہ کریڈٹ لیتے ہیںکہ تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کی تلاشی لی جارہی لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں تو منتخب وزیر اعظم کو پھانسی بھی دی گئی تھی ۔قانون سب کے لئے برابرہوناچاہیے مگر ہمارے ہاں ہرگزایسانہیں ہے ۔اگرایسا ہوتاتھا تو سابق صدرجنرل پرویز مشرف بھی ملک میں عدالتوںکا سامنا کررہے ہوتے۔جنرل صاحب یوں تو پنشنر ہیں لیکن ان کے لہجے کی کھنک اوررُعب ایسا ہے جیسے وہ حاضرسروس ہوں اور اب بھی اپنے فرائض ِمنصبی سرانجام دے کر ماہانہ محنتانہ وصول کررہے ہیں۔ یہ امتیاز سیاسی صفوں میں بھی دکھائی دیتاہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اورقانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کے ساتھ ’’ہولاہتھ‘‘( نرم ہاتھ) رکھا گیاہے۔پانامہ کیس میں وزیر اعظم نوازشریف کو عدالت حاضر ہونے کیلئے نہیں کہاگیادوسری طرف پیپلز پارٹی اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے متفقہ وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو توہین عدالت کا مجرم قراردےکر چند ساعتوں کی سزا سنائی گئی اورپھر گھر بھیج دیاگیا۔واضح رہے کہ یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہاتھادوسری طرف عدالتوں پر حملہ آور ہونے والے اور دھمکانے والوں کو کبھی کٹہرے میں نہیں لایاگیا۔حال ہی میں خواجہ سعد رفیق نے ایک جملہ کے جواب میں جوابی حملہ کرتے ہوئے کہاکہ جنہیں نوازشریف کی زندگی کی کتاب کے صفحات دکھائی نہیں دیتے وہ علاج کرائیں اپنے قائد کی تذلیل برداشت نہیں کریں گے۔ ذراسوچئے !اگر یہی جملہ راجہ پرویز اشرف اور قمرالزمان کائرہ سے سرزد ہوا ہوتاتو وہ لانڈھی جیل میں ہوتے یا مچھ جیل میں؟؟؟
جیوکے پروگرام ’’خبرناک‘‘ میں نوازشریف کے عاشقان کا اندازبھی خواجگانہ ہے۔یہ کردار ملک کے مایہ ناز اداکار آغا ماجد،حسن مراداور شیری ننھا ادا کررہے ہیں۔خواجہ دلبر کے دوبیٹے خواجہ حامی اور خواجہ گامی ہیں جن کا تعلق گوالمنڈی سے ہے اور وہ میاں نوازشریف کے دیوانے ہیں۔ان کے نزدیک قیام پاکستان کے بعد ہرکارنامہ ان کے محبوب قائد نوازشریف نے سرانجام دیاہے۔وہ پروگرام میں جاری کسی بھی موضوع پر ہونے والی گفتگو سے اپنانکتہ اٹھاکر اسے نوازشریف سے موسوم کردیتے ہیں۔کنیزاور چور جیسے حوالہ جات کے لئے خواجگان نے کہاکہ ’’حکمرانوںسے بڑی کوئی کنیز نہیں ہے ‘‘۔میزبان عائشہ برہم ہوتے ہوئے کہتی ہیں کیاحکمران کنیز ہیں؟خواجہ دلبر کسی فلسفی اور بہت بڑے دانشورکی طرح کہتاہے :ہائے ہائے چار جماعتیں پڑھ جاتی تو میری بات کو سمجھتی۔ حکمراںوہ کنیز ہیں جو 20کروڑ عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ انہیں تفنن طبع کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں Categorically۔ جونہی خواجہ دلبر اپنا فقرہ مکمل کرتاہے اس کے بیٹے اسکی تائید میں یک زبان ہوکرکہتے ہیں …یہ بات…ایک موقع پر خواجہ دلبر کہتاہے کہ حکمرانوں سے بڑا کوئی چور نہیں ہے۔۔میزبان حیرانی اور برہمی سے پوچھتی ہے میاں صاحب چورہیں۔۔خواجہ دلبر اس کی کم علمی پر مسکراتے ہوئے کہتاہے کہ ۔۔ حکمران وہ چور ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ،غور سے سنو ! میاں صاحب وہ چور ہیں جس نے 20کروڑ عوام کا دل چرایا ہے اور وہ چوکیدار بن کر اس ملک کی جان ومال کا پہرہ دے رہے ہیںCategorically۔خواجہ دلبر اپنا تھیسس مکمل کرتاہے تو اس کے بیٹے اس پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے کہتے ہیں…یہ بات… Categorically اس کا تکیہ کلام ہے ۔۔۔ہم بھی میاں نوازشریف کو بہت بڑا لیڈر مانتے ہیں اور ان سمیت شخصیات اور ریاستی جملہ اداروں سے توقع رکھتے ہیں کہ اپنا ہر معاملہ آئین اور قانون کے مطابق طے کرتے ہوئے قوم کے سامنے سرخروہوں گے Categorically…یہ بات…



.
تازہ ترین