• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے لوگ بہت عجیب ہیں، اگر محترم عمران خان صاحب نے کہہ ہی دیا کہ انہیں حکومت کی طرف سے دس ارب روپے (جو زیادہ بھی ہوسکتے ہیں) کی رشوت کی پیشکش ہوئی ہے جس کے لئے انہیں صرف پاناما کیس کو بھولنا ہوگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو ’’بروکر‘‘ درمیان میں ہے، اسے بھی دو ارب دیا جائے گا تو اس پر اتنا ’’رولا‘‘ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے، ہم سب جانتے ہیں خان صاحب ساٹھ باسٹھ کے ہو چکے ہیں اور اس عمر میں انسان بھول چوک کا شکار بھی ہو جاتا ہے، ممکن ہے یہ پیشکش انہیں بے نظیر انکم اسپورٹ کی طرف سے ہوئی ہو یا جنوبی افریقہ کے کسی کینسر کےمریض نے میری طرح انہیں بھی خط لکھا ہو کہ اس کی کھربوں کی جائیداد پاکستان کے فلاں شہر میں موجود ہے، اگر وہ واگزار کرا دیں تو اس میں سے بیس ارب آپ رکھ لیں، باقی کسی فلاحی تنظیم کو دے دیں کیونکہ میری زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، یہ خط میرے علاوہ میرے کئی ملازمین کو بھی موصول ہو چکا ہے، مگر ہم غیر سنجیدہ قسم کے لوگ ہیں چنانچہ اسے سیریس نہیں لیا، یہی خط ممکن ہے خان صاحب کو بھی موصول ہوا ہو اور وہ 60-62 کی وجہ سے اس کنفیوژن کا شکار ہوگئے ہوں جس کا اظہار انہوں نے کیا ہے اور اب سارا میڈیا ان کے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ جو شخص آپ کے پاس یہ پیشکش لے کر آیا اس کا نام بتائیں۔ مگر خان صاحب جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، سب کی عزت کرتے ہیں، خواہ ادارے ہوں یا افراد، انہوں نے کبھی بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ان کی کردار کشی نہیں کی، چنانچہ وہ اس دفعہ بھی اپنی اس احتیاط کی عادت کی وجہ سے اس ’’بروکر‘‘ کا نام نہیں بتا رہے جو یہ سودا طے کرانے ان کے پاس آیا تھا۔ بس وہ لمحہ اور آج کا لمحہ خان صاحب پر ہر طرف سے نہ صرف سوالات کی بوچھاڑ ہورہی ہے بلکہ ان پر جگتوں کا بازار بھی گرم ہے۔ ایک صاحب نے تو خان صاحب کو مشورہ دیا کہ اگر کہیں سے دس ارب کی آفر ہوئی ہے تو پکڑ لیں کہ اگلے الیکشن کے بعد کسی نے دس روپے کی آفر بھی نہیں کرنی۔ ایک صاحب نے تو انکشاف کیا ہے کہ خان صاحب کو دس ارب روپے کی آفر دراصل نائیجریا کے بنکر ’’اڈونگ مانبکو ‘‘ نے کی ہے مگر کام نہیں بتایا!
تاہم سب سے زیادہ عقل کی بات میرے محترم امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے کی ہے جو عمران خان کے برعکس اصلی پٹھان ہیں، انہوں نے فرمایا ہے کہ اگر عمران نے دس ارب روپے کی بات کی ہے تو انہیں یقیناً یہ آفر ہوئی ہوگی۔ یہ ’’ایمان بالغیب ‘‘ کی ایک اور قسم ہے جس کے بارے میں علماء ہی روشنی ڈال سکتے ہیں جبکہ وزیراعظم نوازشریف تو یہ کیس عدالت میں لے جانا چاہتے ہیں، لے جائیں عمران خان کے خلاف جھوٹ اور بغیر ثبوت الزام تراشی کے اور بھی بہت سے کیس عدالتوں میں پڑے ہیں مگر میڈیا میں اس حوالے سے کوئی شور سنائی نہیں دیتا تو عدالتیں ان کا نوٹس کیسے لیں، کوئی شور و غوغا سنائی دے تو کچھ ہو۔ میں ان دنوں ٹی وی چینلز ذرا کم ہی دیکھتا ہوں، تحریک انصاف کے ترجمانوں اور عمران خان کو اس حوالے سے گفتگو کرتے دیکھا مگر یہ سب تو اپنے ہی الزام پر کچھ جھیپےجھیپے نظر آتے ہیں، شیخ رشید احمد ضرور کچھ بولے ہوں گے مگر کم از کم میں نے انہیں اس مسئلے پر چہکتے نہیں دیکھا۔ شیخ صاحب کے متعلق ایک ستم ظریف کا کہنا ہے بلکہ اس نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ شیخ صاحب پہلے بات کو تولا کریں اور اس کے بعد بھی نہ بولا کریں۔
اور اب اگر آخر میں میں اپنی رائے دوں تو میرے خیال میں اگر یہ کیس عدالت میں لے جایا گیا اور پوری سنجیدگی سے اسے پٹ اپ کیا گیا تو خان صاحب کو فاضل جج صاحبان کڑاوقت دیں گے خواہ وہ ان کی ماضی بعید کی بیٹنگ کے کتنے ہی بڑے مداح کیوں نہ ہوں۔ اس کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے تاکہ آئندہ سے گالی گلوچ کا یہ سلسلہ ختم ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہے مگر عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد ہماری قومی زبان ’’بدزبانی‘‘ بن چکی ہے۔ ہمیں واپس اپنی شستہ اور خوبصورت زبان کی طرف جانا ہوگا!


.
تازہ ترین