• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دن پہلے ٹورنٹو کے ایک دیسی ایف ایم ریڈیو کی طرف سے فون آیا۔ ان کا کہنا تھا 20اپریل کو پاناما کا فیصلہ سنایا جا رہا ہے۔ ٹورنٹو کا یہ ایف ایم ریڈیو اس دن اس وقت ایک لائیو ٹرانسمیشن کرنے جا رہا ہے آپ بھی ہمارے پروگرام کا حصہ بنیں۔ فون کرنے والے دوست سے پرانا تعلق خاطر تھا اور انکار بھی مناسب نہ لگا، مگر ان کے پروگرام کا مقامی وقت مناسب نہ تھا۔ اس لائیو ریڈیو ٹرانسمیشن کو ٹورنٹو کے وقت کے مطابق صبح پانچ بجے شروع ہونا تھا۔ پروگرام کا دورانیہ تقریباً 90منٹ کا تھا۔ میں نے اپنے فاضل دوست سے پوچھ ہی لیا کہ اتنی صبح اس پروگرام کو کون سنے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خصوصی پروگرام کو عام دنوں سے زیادہ سنا جائے گا۔ ہم گزشتہ تین دنوں سے اپنے پروگرام کے درمیان اس کا تذکرہ کر رہے ہیں اور ردعمل بہت حوصلہ افزا ہے۔ میں نے حامی بھر لی اور درخواست کی کہ گھر سے اس پروگرام کا حصہ بنوں گا۔ مگر پروگرام کے پیش کار کا اصرار تھا کہ میں اسٹوڈیو سے ان کا ساتھ دوں۔ میں حامی بھر چکا تھا سو میں نے پروگرام میں شرکت کا عندیہ دے دیا۔
ابھی موسم میں خاصی خنکی ہے۔ اتنی صبح نکلنا خاصا مشکل لگ رہا تھا۔ خیر میں پروگرام سے دس منٹ پہلے ہی پہنچ گیا۔ اسٹوڈیو میں کافی رونق تھی۔ ریڈیو پروگرام کے فارمیٹ کا مسودہ مجھے بھی دیا گیا۔ ہم چار لوگ ریڈیو اسٹوڈیو میں تھے۔ ٹیلیفون کی تین لائنیں تھیں اور ہمارا پاکستان میں ایک مقامی صحافی کے ذریعہ براہ راست رابطہ تھا۔ اس کے علاوہ دو معاونین بھی تھے۔ ٹھیک وقت پر پروگرام کا آغاز ہوا۔ ہماری ساتھی خاتون اناؤنسر نے حال و احوال بیان کرنے کے بعد بتایا کہ پروگرام کا دورانیہ 90منٹ کا ہوگا۔ تمام سننے اور دیکھنے والے فون لائنز کے علاوہ فیس بک، واٹس اپ، ٹویٹر کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں اور بہترین سوال کرنے والے کو ایک کتاب بطور انعام بھی دی جائے گی۔ ہماری ساتھی میزبان نے سب لوگوں کو شریک گفتگو کیا اور پہلا سوال کیا کہ کیا فیصلہ اردو میں یا انگریزی میں سنایا جائے گا۔ سب لوگ خاموش تھے۔ میں نے اپنا مائیک آن کیا اور بتایا کہ فیصلہ انگریزی میں آنے کی توقع ہے۔ ایک تو سپریم کورٹ میں رائج زبان انگریزی ہے۔ اردو کے فیصلوں کی روایت محدود ہے۔ عموماً تمام کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے، اب مائی لارڈ کا اردو میں کیا ترجمہ کیا جائے گا۔ سب لوگ ہلکے سے مسکرائے کہ پہلی کال موصول ہوئی۔ فون کرنے والے بزرگ کا سوال تھا۔ کیا مقدمے کے فریق عدالت میں موجود ہوں گے۔ میرے ساتھی نے سبز بتی روشن کی اور بتانے لگا۔ ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں۔ پھر اس مقدمہ کے کچھ فریق ملک سے باہر ہیں۔ یہ مقدمہ الزام کی صداقت کے بارے میں ہے۔ پروگرام میں شرکت کرنے والے بزرگ بولےالزام تو وزیراعظم پر ہے۔ میرے ساتھی نے کہا آپ فون بند کریں میں آپ کو بتاتا ہوں۔ اتنے میں فون کی گھنٹی پھر بجنا شروع ہوئی۔ اس دفعہ بولنے والے صاحب نے پوچھا کہ فیصلہ براہ راست سنایا جائے گا اور کیا حکومت اس میں فریق ہے۔ ان سے بھی درخواست کی کہ آپ فون بند کریں، جواب دیتے ہیں۔ میرے ساتھی نے جواب دینا شروع کیا وہ کہہ رہے تھے دونوں سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اس مقدمہ میں ابھی تک سرکار فریق نہیں ہے۔ الزام وزیراعظم پر نہیں ان کے خاندان پر ہے اور اگر وزیراعظم پر بھی ہے تو اس کا فیصلہ بھی عدالت نے ہی کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وقفہ کا اشارہ ہوا اور کمرشل سروس کے اشتہار شروع ہو گئے۔ ایک تناؤ کی کیفیت ختم ہو چکی تھی کہ ہمارا رابطہ اسلام آباد سے ہو گیا۔ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت میں ہمارا ساتھی صحافی ٹیلیفون پر تھا۔ اس کا کہنا تھا، مقدمہ کے پانچ جج حضرات کمرہ عدالت میں آچکے ہیں اور عدالت میں بہت زیادہ رش ہے۔ اس وقت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے اہم لوگ کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ کمرہ عدالت میں فون کے استعمال کی اجازت نہیں اس لئے وہ باہر آکر ہم سے بات کر رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ان کا کہنا تھا۔ میں کمرہ عدالت میں جا رہا ہوں۔ دوبارہ رابطہ کروں گا اور اسٹوڈیو کی لائٹ سبز ہو چکی تھی جس کا مطلب تھا کہ پروگرام کو دوبارہ شروع کیا جائے۔ ہماری ساتھی خاتون نے ایک دفعہ پھر کہنا شروع کیا ہمارا پاکستان سے رابطہ ہے اور اس وقت مقدمہ کا فیصلہ سنایا جارہا ہے۔ اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ ہمارے معاونین میں سے ایک نے فون اٹھایا اور سوال کرنے والے کا نام پوچھا۔ پھراس کی لائن تھرو کردی۔ دوسری طرف فون کرنے والے صاحب گولف کے شہر سے فون کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا میں نے ٹی وی پر فیصلہ کا کچھ حصہ سنا ہے ’’لگتا ہے کہ فیصلہ مشروط ہے‘‘ اس دوران ہمارا ساتھی صحافی دوبارہ پاکستان سے لائن پر تھا۔ میرے ساتھی نے ان سے کہا آپ بھی لائن پر رہیں۔ پاکستان سے فیصلہ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں صحافی دوست صدیق سے پوچھا کیا فیصلہ آیا ہے اور کس نے سنایا ہے؟ پھر انہوں نے بتانا شروع کیا۔ پاناما مقدمہ کا فیصلہ پانچ جج حضرات نے علیحدہ علیحدہ لکھا ہے اور ہر جج نے 110صفحوں پرمشتمل اپنا اپنا فیصلہ لکھا ہے۔ فیصلہ مشروط ہے اور انگریزی میں سنایا گیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے لوگ بہت ہی پُرجوش اورخوشی محسوس کررہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے فیصلہ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے شکر ادا کیا ہے۔ ایک اور وزیر احسن اقبال چہرے سے تفکر کا شکار نظر آئے اور وہ بھی بظاہر اس فیصلہ پر مطمئن ہونے کا کہہ رہے تھے۔ عدالت سے باہر وکیل صاحبان کا ایک گروہ مٹھائی بانٹتا بھی نظر آرہا ہے اور کمال یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے لوگ مٹھائی کھانے میں پیش پیش ہیں اور اس وقت تمام لوگ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر خوش نظر آرہے ہیں۔ اب دوسرے وقفہ کے لئے بتی جل رہی تھی۔ ایک دفعہ پھر وقفہ کا اعلان کیا۔ اسٹوڈیو میں مائیک بند تھے اس لئے آسانی سے گفتگو ہوسکتی تھی۔ میرے ساتھی کا سوال تھا کہ مشروط فیصلے سے کیا مراد ہے۔ پھر اس وقت یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ فیصلہ دو اور تین کی نسبت سے آیا ہے۔ دو جج حضرات وزیراعظم کے وکیلوں سے مطمئن نہیں اور تین جج حضرات وزیراعظم سے مزید ثبوتوں کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ ہماری خاتون ساتھی بولی کیا یہ فیصلہ ہے یا ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ سب نے میری طرف دیکھا۔ ایک فیصلہ آچکا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے ابھی عدالت کو مطمئن کرنا ہے۔ عدالت ان کو صفائی کا مزید موقع مشروط طور پر دے چکی ہے اوراس کے لئے سپریم کورٹ نے طریقہ بھی وضع کردیا ہے اس پر ابھی بات کرنی مشکل ہے۔ اتنے میں پروگرام کا وقفہ ختم ہو چکا تھا اور پہلی کال پر سوال تھا ابھی چند دن پہلے امریکی لوگوں نے گدھے کو ووٹ دیا اورشیروں کی طرح کی زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستانی شیر کو ووٹ دے کر گدھوں کی طرح کیوں زندگی گزارتے ہیں۔ سب لوگوں نے مشترکہ قہقہہ لگایا اور میری طرف دیکھا۔ میں نے سوال کرنے والے سے پوچھا۔ اس کا اس مقدمے سے کیا تعلق ہے۔ مقدمے میں نہ شیر ہے اور نہ گدھا۔ خیر یہ تو اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔ ہم لوگ قسمت کے معاملہ میں کمزور ہیں مگر اس مقدمہ کے مکمل فیصلہ کے بعد قسمت بدلنے کی بہت امید ہے۔ سوال کرنے والا بھی ایک بے چین روح تھی ایک اور سوال داغ دیا۔ جناب قطری خط کا کیا بنا، سوال سنجیدہ نوعیت کا تھا مگر کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میرا ساتھی بولا آپ کی بات درست ہے اس لئے قطری خط کو اس فیصلہ میں شہادت نہیں مانا گیا۔ مگر قطری دوست میاں صاحب کی صفائی دینے کے لئے اب بھی آسکتے ہیں تو ان سے دوسرے معاملے بھی طے کرلیں گے۔ ٹیلیفون بند ہوگیا۔ اب پروگرام کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا کہ بس اب آخری کال کے بعد پروگرام ختم کیا جائے گا کہ گھنٹی بجی دوسری طرف ایک محترمہ تھی۔ میں نے ان سے نام پوچھا کہنے لگی۔ صوفی۔ میں نے دوبارہ پوچھا صوفی کیا س سے ہے کہ ص سے ہے۔ جواب ملا کہ کیا مطلب نام سوفی ہے، اور آپ س سے بلائیں یا ص سے۔ میں لاجواب تھا۔ آپ کا سوال کیا ہے۔ پاکستانی عدالتوں سے انصاف لینے کے لئے کیا ضروری ہے۔ میں حیران تھا۔ انصاف کے لئے کیا ضروری ہے۔ ایک مکمل اور بااختیار عدالت بس۔ سوال و جواب کے بعد پروگرام کے ختم ہونے کا اعلان کردیا گیا۔



.
تازہ ترین