• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک گوہر کمیاب … کونسلر ڈاکٹر جیمز شیرا تحریر:منظورا لحق،سابق سفیر…لندن

یہ2006ء کا ذکر ہے۔ میری تعیناتی پاکستان کے ہائی کمیشن لندن میں ہوئی تھی ایک دن ہماری وزارتِ خارجہ کے سابق سیکرٹری جنرل اکرم ذکی میرے دفتر تشریف لائے وہ بہت عرصہ پہلے ہائی کمیشن میں سیکنڈ سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے اور اپنے زمانے کے حوالے سے گفتگو کرنے لگے انہوں نے اپنے ایک دوست کونسلر جیمز شیرا کا ذکرکیاجن کو وہ اس وقت سے جانتے تھے اور اتنے عرصے کے بعد بھی ان دونوں کی دوستی میں کمی نہیں آئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے اس ترقی یافتہ دور سے پہلے دوسرے ملکوں میں رہنے والوں کے ساتھ دوستی اور تعلق رکھنا بہت مشکل تھا۔ خصوصا سفارت کاروں کیلئے دوستی نبھانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ وہ جہاں جاتے دوست بناتے اور جب وہاں سے رخصت ہوتے توان کے ساتھ رابطہ رکھنا تقریباً ناممکن ہوجاتا۔ اس لئے کہ ٹیلی فون کرنا مہنگا بھی تھا اور مشکل بھی۔ ای میل، فیس بک اور سفر کی زیادہ سہولتیں موجود نہیں تھیں۔ سفارت کار بین الاقوامی خانہ بدوش کہلاتے تھے۔ اس لئے میں نے جب ذکی صاحب اورشیرا صاحب کی دوستی دیکھی تو متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکا۔ اکرم ذکی نے مجھے جیمز شیرا کا ٹیلی فون نمبر دیا اور میں نے ان سے رابطہ کیا۔ ہماری جس خوشگوار دوستی کا آغاز ہوا وہ آج بھی قائم ہے۔ ہم جہاں بھی رہے ایک دوسرے سے رابطے میں رہے۔ عید کا دن ہو، پاکستان کا قومی دن یا کوئی تہوار ہو ڈاکٹر شیرا کی طرف سے نیک تمناؤں کا پیغام ضرور آتاہے۔ ملک میں کسی کو مدد کی ضرورت ہو یا ہائی کمیشن کو کوئی تعاون درکار ہو وہ حاضر ہوتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ہمیشہ مثبت انداز میں بات کرتے ہیں۔ رگبی میں ان کی مدد سے پاکستان سنٹر کا قیام عمل میں آیا۔ ان کی پاکستان دوستی اور پاکستانیوں سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان پڑھنے کی غرض سے گھر سے نکلا توکبھی پیدل اور کبھی کسی سے لفٹ لیتے ہوئے پاکستان سے افغانستان، ترکی، قبرص، یونان اور اٹلی سے ہوتا ہوا بلجیم پہنچا۔ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1970ء میں انگلستان کیلئے رخت سفر باندھا اور رگبی پہنچا۔وہاں کچھ عرصہ ریلوے گارڈ کے حیثیت سے کام کیا۔ بعد میں درس وتدریس کے شعبے میں ملازم رہے ان کی رواداری، انسان دوستی اور خدمت خلق کے جذبے نے انہیں مقامی سیاست کی طرف مائل کیا اور وہ 1981 میں رگبی بروکے بن وڈ سے کونسلر کے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ اس حلقے سے انتخاب جیتنا اسان نہ تھا۔ اس علاقے میں ایشیائی نژاد باشندے بہت کم تھے۔ کونسلر شیرا کو بہت محنت کرنا پڑی۔ ایک بار وہ ایک مقامی باشندے کے گھر گئے۔ دروازے پر دستک دی تو وہ شخص باہر نکل آیا مگر غصے سے لال پیلا ہورہاتھا۔کہنے لگاکہ میں تمہیں ووٹ نہیں دونگا۔ اس نے واضح کیا کہ وہ انہیں آقا نہیں بنائے گا۔ کونسلر شیرا نے اس سے معذرت کی کہ وہ اس کے آرام میں مخل ہوئے اور پھر اسے کہا ’’آپ مجھے ووٹ دے کر اپناآقا نہیں غلام بنادیں، وہ شخص کچھ کہے بغیر اند چلا گیا لیکن دوسرے دن آیا اورکونسلر شیرا کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس طرح ہر شخص کی رائے کا احترام کرنا اور ہر ایک کا خیال رکھنا بہت مشکل کام ہے لیکن کسی کادل جیتنے کے لئے صبروتحمل، حوصلہ، بردباری اور رواداری چاہئے انہی صفات کی وجہ سے ڈاکٹر شیرابن وڈ سے دس بار کونسلر منتخب ہو کر طویل ترین مدت تک اسی منصب پر بلا تعطل فائز رہنے والے پہلے شخص کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ اسی طرح وہ 1988میں رگبی کے پہلے پاکستانی نژاد میئرکا شرف بھی حاصل کر چکے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایشیائی نژاد لوگ مقامی سیاست میں خال خال نظرآتے تھے اس دور سے متعلق انہوں نے مجھے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ ایک دن وہ اپنے دفتر کے باہر کسی کام میں مصروف تھے کہ چند خواتین آئیں اور ان سے پوچھنے لگیں کہ میئرکہاں ہیں؟ وہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ کونسلر شیرا نے انہیں چند لمحے انتظار کرنے کو کہا اندر گئے۔ اپنا میئر والا گاؤن پہنا اور باہر آکران کو اپنے دفتر لے گئے۔ خواتین حیران رہ گئیں کہ جن کو وہ دفتر کا ایک عام سا ملازم سمجھ رہی تھیں وہ تو میئر نکلا۔ ڈاکٹر شیرا کو بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے سلسلے میں گرانقدر خدمات انجام دینے پر حکومت پاکستان نے 1992میں ستارہ پاکستان سے نوازا۔ وہ اس قومی اعزاز کے صحیح حقدار ہیں پاکستان سے ان کا خصوصی لگاؤ ہے وہ مذہباً عیسائی ہیں لیکن انہوں نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے پاکستانی مسلمان بھائیوں کے احترام میں ایسا کرتے ہیں اس لئے کہ ان کے ہاں شراب نوشی کو اچھا نہیں سمجھاجاتاہےیہی حال ان کا اسلام اور مسلمانوں سے احترام کا بھی ہے۔ انہوں نے رگبی میں مسجد کی تعمیراور مسلمانوں کیلئے علیحدہ قبرستان بنانے میں بھر پور مدد کی۔
پاکستان کے برطانیہ میں سابق ہائی کمشنر اور امریکن یونیورسٹی واشنگٹن میں ابن خلدون چیئر کے سربراہ اکبر ایس احمد نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں مدعو تھے تاہم وہ کسی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کرسکتے تھے۔ تو انہوں نے ڈاکٹر شیرا سے بات کی جنہوں نے وہاں جاکر ان کی جگہ خطاب کیا۔ اسی طرح آکسفورڈ سٹوڈنٹس سوسائٹی کی ایک تقریب میں بھی انہوں نے اکبر ایس احمد کی جگہ شرکت کی۔ اکبر ایس احمد ایک مسلمان دانشور ہیں اور کونسلر شیرا عیسائی ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کی ایسی مثال شاید کہیں اور ملے۔ ڈاکٹر شیرا دو یونیورسٹیوں کے بورڈز آف ڈائریکٹرزکے رکن رہ چکے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں خدمات کے اعتراف کے طورپر یونیورسٹی آف ہیڈ فورڈ شائر نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی اور وارک کالج جانے والی ایک سڑک کو ان کے نام پہ’’جیمز شیرا وے‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ اعزاز پہلی بار کسی پاکستانی نژاد شخص کو اور کسی زندہ شخصیت کے حصے میں آئی ہے۔ اس سے پہلے 2007 میں ملکہ برطانیہ کی طرف سے تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو ایم بی ای کا خطاب دیاگیا تھا رگبی برو نے ڈاکٹرجیمز شیرا کو ان کی عوامی خدمات کے اعتراف میں 27اپریل کو ایک پروقار تقریب منعقد کی اور ان کو’’فریڈم آف برو‘‘کے خطاب سے نوازا یہ بہت بڑی عزت افزائی ہے میں اپنے دوست جیمزشیرا کو مبارکباد پیش کرتاہوں اور رگبی کے عوام کو بھی خراج تحسین پیش کرتاہوں جنہوں نے اس گوہر کمیاب کی قدر کی۔ آج ہمیں جذبہ برداشت کے فروغ اور متشددانہ رویوں کی روک تھام کے لئے ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔



.
تازہ ترین