• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکس اینڈ میچ … میرج بیوروز حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن

مکس اینڈ میچ کے ہی پرکشش نام سے لوگ اپنے بچوں کے رشتوں کیلئے دیوانہ وار ایسے ایسے شادی دفتروں کی طرف بھاگتے ہیں کہ شاید اسی ادارے سے ان کے بچوں کیلئے کوئی اچھا سا بر مل جائے۔ دنیا میں جہاں بھی لوگ اپنے بچوں کیلئے رشتے کی تلاش میں میرج بیوروز کا رخ کرتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں بھاری قسم کی فیس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خاص طور پر مقرر ہوتی ہے۔ اس کے بعد جھوٹے قسم کے بر دکھانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ والدین دراصل ایسے ایسے جھوٹ اور فراڈ کا تماشہ دیکھنے کی ہی فیس ادا کرتے ہیں۔ میرج بیورو والے بتاتے ہیں کہ لڑکا باہر کے ملک میں بہت اچھی سی جاب کرتا ہے، خاندان بہت اعلیٰ ہے بلکہ لڑکے کا تو دادا بھی آکسفورڈ پڑھنے گیا تھا حالانکہ لڑکے کا دادا باہر ولائت میں آیا ضرور تھا مگر آکسفورڈ یا کسی بھی معمولی سی یونیورسٹی کے پاس سے اس کا گزر بھی نہ ہوا ہوگا بلکہ اس نے برتن دھونے کی نوکری بھی کسی گھٹیا سے ریسٹورنٹ سے شروع کی ہوگی یا پھر کسی قصاب کی شاپ پر بے چارا بکرے و بھیڑوں کے گوشت کی بوٹیاں بنا کر تول کے بیچتا ہوگا اور پھر ایسی ہی چھوٹی بڑی نوکریوں کے بعد وہ اپنی تیسری نسل تک پہنچے پہنچتے ایک بچر شاپ ضرور خرید لیتا ہوگا۔ پھر ظاہر ہے گھر کی لیبرپالیسی کے تحت وہ اپنے بیٹے اور پوتے کو بھی اپنے پاس انگلینڈ میں بلوالیتا ہوگا کہ ایک تو ان سے دور رہ کے جو خلش پیدا ہوئی تھی اس کا تدارک ہوجائیگا دوسرا یہ لوگ خوب کنجوس ہوجاتے ہیں باہر سے کسی غیر کو کام دینے کی بجائے اپنے ہی بچوں کو باہر بلواتے ہیں پھر کمائی کے طویل تر سلسلے سے بہت اچھے اچھے پاکستان میں گھر بنواتے ہیں اپنے بچوں کی شادیاں جاننے والوں میں نہیں کرتے بلکہ بڑے بڑے میرج بیوروز کا رخ کرتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اچھے گھروں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتے ان کے بیٹوں اور پوتوں کو مل جاتےہونگے۔ اور آپ تمام لوگ جانتے ہیں کہ یورپ، امریکہ اور انگلینڈ آنے کا شوق آجکل زیادہ ہوگیا ہے لوگوں کو چاہے وہ اپنے ملک کےکھاتے پیتے گھرانے ہوں یا عام زندگی گزارنے والے ہوں۔ تو بات ہورہی تھی کہ پاکستان میں لوگ کھاتے پیتے گھروں میں جھوٹ اور فراڈ کے ساتھ رشتے جوڑلیتے ہیں کہ لڑکے کا دادا آکسفورڈ پڑھنے گیا تھا۔ پھر انہیں باپ، دادا اور پوتے کی گروپ فوٹو دکھا کر متاثر کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے وائٹ لیب کوٹ پہنا ہوتا ہے گویا ظاہر ہوا کہ سفید لیب کوٹ پہن کر کسی یونیورسٹی کی لیبارٹری میں کچھ تجربے وغیرہ کرتے رہتے ہیں جبکہ معاملہ اسکے برعکس ہوتا ہے اور وائٹ لیب کوٹ یہاں پر ہائی جین پرپس کیلئے بھی پہنا جاتا ہے اور وائٹ لیب کوٹ پہن کر چاہے وہ میٹ کی وین سے سالم بکرے اتارتے ہوں یہاں پر گوشت ذبح ہونے کے بعد وین کے ذریعے دکان در دکان بھیجا جاتا ہے اور یوں میٹ لانے والے اور لینے والے دونوں ہی وائٹ لیب کوٹ پہنے ہوتے ہیں یوں وہ اسی حلیے میں رگڑ رگڑ کے شیو سے چہرہ کلین کرکے تصاویر بناکرپاکستان بھیج دیتے ہیں اور بے چارے سادہ لوح لوگ ان جھانسوں اور اٹکلوں میں آجاتے ہیں، پھر اپنی تعلیم یافتہ، عیش و آرام میں پلی نہ جانے کتے گرکے بنگلے میں رہنے والی کو یہاں بھیج دیتے ہیں، یہ صرف انگریزی بولتا دیکھ امپریس ہوجاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ واقعی یہ لوگ دادا، پوتا کیمبرج یا آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں، وہ تو جب لڑکی یہاں آتی ہے تو اس پر حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی اوقات کیا ہے۔ دادا نے پورے خاندان کو دکان کے اوپر بنے کمروں میں سمویا ہوتا ہے بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ لڑکی کے لیے مزید جھمیلے بھی تیار ہوتے ہیں۔ اچھا لوگ یورپ سے جاکر میرج بیورو والوں کو بھاری رقم دے کر جھوٹ، سچ کے لیے خرید لیتے ہیں، چاہے وہ کیب ڈرائیور ہو یا پھر وین میں سبزیاں اور آئس کریم بیچتا ہو۔ بہت سے ٹیکسی ڈرائیور تو نہایت اچھی خاندانی لڑکیوں سے شادی کر لاتے ہیں اور خود ایک کمرے میں کئی کئی لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں اور بیوی آنے پر کوئی باقاعدہ رہائش کا انتظام بھی نہیں کرتے دیرینہ دوستوں کے گھروں میں ٹھہراتے ہیں کوئی تو خود کو بہت بڑا بزنس مین ظاہر کرکے تعلیم یافتہ لڑکی لے آتا ہے بعد میں پتہ پڑتا ہے کہ وہ تو چھتریوں میں رومال و سکارف رکھ کے بیچتا ہے یا پھر وین میں کھانے پینے کا سامان رکھ کر بیچتا ہے اور اسی وین میں سو بھی جاتا ہے۔
مذکورہ بالا حالات کا تعلق صرف برطانیہ سے نہیں ہے، بلکہ یورپ و امریکہ میں بھی ملتے جلتے حالات ہیں جہاں تعلیم یافتہ خاندانی لڑکیاں آکر رل جاتی ہیں۔ ان حالات کے ذمہ دار زیادہ تر میرج بیوروز یا محلے کی ماسیاں اور نامی گرامی رشتے کرانے والی آنٹیاں ہوتی ہیں۔ اب میرج بیوروز نے نام ہی اتنے پرکش رکھے ہیں کہ لوگ ان ناموں میں کشش سی محسوس کرکے کھینچے چلے آتے ہیں کہ شاید ہمارے بچوں کے نیک نصیب انہی ہاتھوں میں ہیں۔ سب سے پہلے غور کیجئے انہی ناموں کی وجہ سے ان کے کاروبار چمکتے ہیں کہ…
1۔ الفلاح میرج بیورو آپ کے بچوں کی حیثیت کے مطابق مکس اینڈ میچ کی صلاحیت سے بھرپور۔2۔ فی سیبل اللہ رشتہ گھر جہاں خدا خوفی کے تحت بر دکھائے جاتے ہیں وہ بھی مفت۔ (مگر یہ تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ کیسے کن لوگوں سے واسطہ پڑے۔)3۔ شادی ڈاٹ کام۔ 4۔ مسلم میرج بیورو۔ 5۔ منظور نظر میرج بیورو۔ 6۔ بر دکھوا، میرج بیورو وغیرہ وغیرہ، ان میں سے اصل ناموں کو تبدیلی کے ساتھ اور کچھ ہمارے اپنے من گھڑت نام ہیں تفریح طبع کیلئے۔
آج کل اولاد کے لیے اچھے رشتے ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اس سے بھی مشکل کام ان پر اعتماد کرنا ہے اور کہیں کہیں یہ اعتماد اندھا بھی ہوجاتا ہے۔ والدین رجسٹریشن فیس بھی بھاری ادا کرتے ہیں اور بھلے ہی رشتوں کی لائن لگ جاتی ہے، مگر کون جانے کہ کون سے کون سے رشتے بچوں کے مواقف و مطابق ہوتے ہیں اور کون سے جھوٹ و فراڈ سے مامور ہوتے ہیں، ابھی تو صرف تھوڑے حالات بیان کیے ہیں، رشتوں کے سلسلے میں فراڈ کا نیٹ ورک بے حد وسیع ہے جو ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔



.
تازہ ترین