• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہری سندھ کا سیاسی منظرنامہ خصوصی تحریر…فاروق عادل

کسی نکتہ داں نے چند اہل نظر کو جمع کیا اور ان کے سامنے ایک سوال رکھا کہ بھائیو! ایم کیو ایم کا عہد بیت چکا، فرمایئے کہ اب کراچی یا پھر شہری سندھ کیا کرے؟ سننے والوں نے یہ سوال سنا، پھر کہا کہ ایسا کرتے ہیں، ایک نئی ایم کیو ایم بنا لیتے ہیں۔ داستانوں کا عہد ہوتا تو داستان گو کہتا کہ یہ جواب سن کر پہلے وہ بزرگ ہنسا پھر رو دیا مگر یہ حقائق کی دنیا ہے۔ محض ہنس دینے یا آنسو بہانے سے کام نہیں چلے گا۔تھوڑی محنت کرکے بہر صورت یہ جاننا پڑے گا کہ شہری سندھ آج کس ذہنی فضا میں جی رہا ہے؟ شہری سندھ یا یوں کہہ لیجئے کہ مہاجر سیاست میں سن بانوے کا واقعہ ایک متنازع بلکہ بدنام واقعہ ہے لیکن یہ سال مہاجر سیاست کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اردو بولنے والوں نے جب ایک شخص کو مسیحا جان کر اپنی قیادت کا تاج اس کے سر پر سجا دیا تو وہ بڑے مطمئن تھے، یہ سوچ کر کہ اب تک جن لوگوں پر اعتماد کیا یا وہ کہیں باہر سے آئے تھے یاپھر ان کی ترجیحات میں ان کے چاہنے والے کہیں نیچے اور ان کی آدرشیں بلندتھیں، یہ نوجوان تو دیکھا بھالا ہے اور ان دکھوں کا ذائقہ بھی اس نے خوب اچھی طرح چکھ رکھا ہے جن سے انھیں صبح شام واسطہ پڑتا ہے۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جب اس نوجوان کے ہاتھ میں زمام کار آئی تو انھیں دن میں تارے دکھائی دے گئے۔ وہ ٹیلی ویژن کو بیچ کر بندوق خریدنے کی بات کو محض ایک استعارہ سمجھے تھے، ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھا کہ ان کے شہر اور گلی محلے بلکہ ان کی اولادیں خون میں اس طرح نہلا دی جائیں گی کہ پہچاننا مشکل ہو جائے گا۔ جون انیس سو بانوے کے واقعات اسی ڈراؤنے خواب سے نکلنے کی پہلی شعوری کوشش تھے جنھیں کچھ لوگوں کی جلد بازی اور آفاق احمد کی عاقبت نا اندیشی نے ناکام بنا دیا ، چنانچہ ایک مشکل صورت حال میں پھنسے ہوئے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ تو آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے والی بات ہے،اس لئے کسی نئے بلکہ مشکوک تجربے سے دور ی میں ہی انھوں نے عافیت جانی۔ اردو بولنے والوں نے اس صورت حال سے نکلنے کی دوسری شعوری کوشش دو ہزار دو کے عام انتخابات میں کی۔ ان انتخابات اور ان کے نتائج کے بارے میں کئی باتیں کہی جاتی ہیں، ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ درست بھی ہوں لیکن ایک بات ایسی ہے جس پر زیادہ غور نہیں کیا گیا۔ اس انتخاب میں شہری سندھ سے متحدہ مجلس عمل اور دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی ایک قابل ذکر تعداد اسمبلیوں میں جا پہنچی تو کئی اصحاب نظر کے خیال میں یہ ایک حیران کن واقعہ تھا۔اس گتھی کو سلجھانے کے لئے میں نے اپنے ایک دوست کو ساتھ لیا اور براستہ لیاقت آباد، گولی مار اور پاک کالونی سے ہوتا ہوا اورنگی ٹاؤن تک جا پہنچا۔ دوسری طرف جو سفر گلشن اقبال سے شروع کیا تھا، اسے شاہ فیصل کالونی، ملیر، کھوکھرا پار سے ہوتے ہوئے لانڈھی کورنگی تک جا پہنچایا۔ سفر وسیلہ ظفر، سمجھ میں یہ آیا کہ پاور پالیٹکس کے تقاضے کچھ بھی ہوں لیکن اس شہر کے لوگوں کا یہ فیصلہ اتنا سطحی نہیں، انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا ہے۔ مجھے لیاقت آباد کے ڈاکخانہ چوک کے ایک موٹر سائیکل مکینک کا جملہ کبھی نہیں بھولتا۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ اس شہر کا مینڈیٹ تو ایک بار پھر چرا لیا گیا۔ اس نے پہیہ گھما کر سر اوپر اٹھایا اور کہا: ’’یہ چوری نہیں پچھلے اٹھارہ برس کی حماقتوں کا کفارہ ہے‘‘۔ ماضی قریب کے یہ واقعات اگر کسی کے حافظے میں ہوں تو یقینا اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ اس زمانے میں آئے روز کی پر تشدد ہڑتالوں اور خونریزی کے نت نئے بہانوں کی وجہ سے لوگ آزردہ تھے، انھیں جیسے ہی ایک موقع دستیاب ہوا، انھوں نے اسے ضائع نہ جانے دیا۔ دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے موقع پر انہی لوگوں نے ایک بار پھر زندگی کا ثبوت پیش کیا۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے دس جماعتی اتحاد بنا کر متبادل قیادت فراہم کرنے کا مژدہ انھیں سنایا تو وہ پرامید ہو گئے اور انھوں نے اس بکھرے ہوئے اتحاد کی جھولی میں بھی اتنے ووٹ ڈال دیئے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس لئے شہری سندھ کو کوئی الزام دینے سے قبل یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کیا انھیں سنجیدگی کے ساتھ واقعی کبھی متبادل پیش بھی کیا گیا ؟
شہری سندھ کا خیال ہے کہ اس وقت بھی کوئی متبادل اس کے سامنے نہیں۔یہی الجھن ہے جس کے سبب وہ ایک بار پھر ماضی کی طرف دیکھنے پر خود کو مجبور پاتاہے لیکن ان کے دکھوں کا علاج ماضی کی طرح داخلیت پسندی بلکہ پورے جذبے کے ساتھ قومی دھارے میں شریک ہو جانے میں ہے۔ بہت مدت کے بعد وفاقی حکومت نے کراچی پر توجہ دی ہے جس کے نتیجے میں گرین لائن کے نام سے ماس ٹرانزٹ کا ایک منصوبہ عملی صورت اختیار کررہا ہے، پانی اور بجلی کے منصوبے یعنی کے فور اور دو ایٹمی بجلی گھر بھی عالم وجود میں آرہے ہیں۔ میاں صاحب نے کراچی سے بھی زیادہ دکھی شہر حیدر آباد پر توجہ دی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی جماعت اندرون سندھ کے ساتھ شہری سندھ کو بھی قیادت فراہم کرنے کا سوچے۔ ان کے دیکھا دیکھی اگر دیگر جماعتیں بھی اس جانب توجہ دیں تو صورت حال دیکھتے ہی دیکھتے بدل جائے گی۔ شہری سندھ اور کراچی کے مسائل کے حل کی ایک بنیاد توقومی دھارے میں شرکت میں ہے، اس کی دوسری بنیاد یہ ہوگی کہ قومی جماعتیں سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر لوگوں کو مخاطب کریں، پھر دیکھئے یہ گلشن کیسے مہکتا ہے۔ بہت پرانے وقتوں کی بات ہے، کوئی بھولا بھٹکا شہزادہ کسی ایسے شہر میں جا نکلا جسے جادو کے زور پر ساکت کردیا گیا تھا۔ شہزادے نے یہ منظر دیکھا تو اپنی بانسری نکالی اور ایک نظر جادو گر پر ڈالنے کے بعد نتائج سے بے پروا ہو کر اسے بجانا شروع کردیا۔ اللہ کی قدرت کا تماشا دیکھئے کہ پہلی تان کے ساتھ ہی شہر والوں نے انگڑائی لے کر منظر بدل ڈالا، کس نیک بخت کے اندوختے میں ایسی بانسری ہے؟ ذرا اپنا اسباب ٹٹول کر تو دیکھئے۔


.
تازہ ترین