• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مئی کا مہینہ اور اس کا پہلا دن۔ اس دن کی اہمیت کچھ بھی ہو ہم اسے مزدور کے حوالے سے جانتے ہیں۔یکم مئی کا دن ہر سال آتا ہے اور اس دن ہمارے اسکول، کالج، سر کاری دفاتر، مارکیٹیں اور دکانیں بند ہوتی ہیں اور نعرہ لگایا جاتا ہے کہ یہ محنت کشوں کا دن ہے۔ پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز 1927ء میں ہوا اور یکم مئی کو قانونی طورپر مزدور ڈے کا خطاب دے دیا گیا۔ پاکستان آج انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر ہے۔ جس کا مقصد مزدور کو معاشی حقوق دینا اور انہیں ان کے حق کے بارے آگاہ کرنا ہے۔ یکم مئی 1882ء کو شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے حقوق کیلئے علم بغاوت بلند کیا، جانوں کا نذرانہ دیا اور امر ہوگئے مگر اس واقع کے سوا سو سال بعد بھی ہمارے ملک میں محنت کشوں کے مسائل کم نہ ہوئے جو انتہائی کم اجرتوں پر مہنگائی سے لڑتے لڑتے روز جیتے اور مرتے ہیں۔ اب بھی مزدور کو ناصرف بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کا سامنا ہے بلکہ گیس، بجلی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں بند اور لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوگئے ہیں۔ مزدورررہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے کم ازکم اجرت 8000 روپے مقرر تو کی گئی ہے لیکن اس پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان میں یوم مئی پر سرکاری اور غیرسرکاری تقریبات بھی ہوتی اور معاشرے میں مزدور کے کردار کو سراہا بھی جاتا ہے لیکن ایک عام مزدور تو کام میں ہی لگا رہتا ہے اسے یوم مئی سے کیا غرض۔ وہ تو یہ کہتا ہے کہ کیا یوم مئی نے میرے حالات بدلے ہیں؟ میں کتنے ایسے ہنر مندوں کو جانتی ہوںجن حالات میں وہ پیدا ہوئے ان ہی میں چل بسے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ گھر میں بیٹھ کر آرام اور سکون سے بڑے لوگ ہی یوم مئی منا سکتے ہیں ایک مزدور نہیں۔
(عفیفہ الطاف۔ کراچی )
تازہ ترین