• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان میں انتقال خون کے طریق کار کو غیر محفوظ قرار دیا ہے، اگر یہ تجزیہ درست ہے تو ملک میں ہیپاٹائٹس سی جیسے موذی امراض کے خاتمے یا انہیں کنٹرول کرنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی ناقص لیبارٹری ٹیسٹ اور انتقال خون سمیت اسے اسٹور کرنے کے ناقص انتظامات مہلک بیماریوں کے پھیلائو کا موجب بنتے رہیں گے۔ عالمی ادارہ صحت نے حکومت پاکستان سے سفارش کی ہے کہ انتقال خون کو محفوظ بنانے اور اتھارٹی کی ریگولیشن کے لئے مزید قانون سازی کی جائے۔ جمعہ کو عالمی ادارہ صحت کے دو رکنی وفد نے اسلام آباد میں وزارت صحت حکام سے ملاقات کر کے انہیں وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبوں کے ریجنل بلڈ سنٹرز اور غیر سرکاری بلڈ بنکس کا دورہ کر کے مرتب کی گئی رپورٹ پیش کی جس میں اسلام آباد کے سرکاری بلڈ بنکس کو کافی حد تک تسلی بخش لیکن یہاں کے نجی اور صوبوں کے ریجنل بلڈ بنکس کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اسے جان لیوا امراض کے پھیلائو کا بڑا سبب قرار دیا۔ یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ بلڈ بنکس کا باقاعدگی سے معائنے کا نظام وضع کیا جائے ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر بلڈ بنکس کام کر رہے ہیں اور خون کے حصول کا بڑا ذریعہ عطیات ہیں۔ مریض کے خون کا گروپ میچ نہ ہونے کی صورت میں مختلف طریقوں سے خون حاصل کی جاتا ہے جہاں خون بیچنے والے نشئی لوگ بھی پہنچ جاتے ہیں، خون کو معیاری طریقے سے محفوظ کرنے کا بھی فقدان ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث اکثر کولڈ اسٹوریج مطلوبہ ٹمپریچر برقرار نہیں رکھ پاتے اور نجانے ملک بھر میں کتنے مریضوں کو روزانہ غیر معیاری خون کا انتقال کیاجا رہا ہے جس سے وہ نئی بیماری لے کر گھر لوٹتے ہیں۔ اگر عالمی ادارۂ صحت نے محفوظ انتقال خون کے لئے مزید قانون سازی کرنے کا مشورہ دیا ہے تو اس پر عمل ہونا چاہئے صحت کے حکام کو چاہئے کہ اس نازک معاملے کا نوٹس لیں اور اگر ضرورت پڑے تو مزید قانون سازی کی جائے۔

.
تازہ ترین