• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک کرب ہے جو چین نہیں لینے دیتا، ایک اذیت ہے جس کا کوئی مداوا نہیں۔
بیجنگ سے جکارتہ تک اور کوالالمپور سے بنکاک تک ہر جگہ ایک ہی کہانی ہے، غلامی کی اور یہ کہانی ہر اس جگہ جنم لیتی ہے جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی لوگ یہ سوچنا شروع کردیں کہ آج کے دن اُس کے بچے اپنی بھوک کیسے مٹائیں گے۔ ممکن ہے غلامی کی یہ شکل بیجنگ میں کچھ اور ہو اور جکارتہ میں مختلف مگر بنکاک میں اس کا روپ کہیں زیادہ مکروہ ہے۔ آج سے بارہ برس قبل جب ایک تربیتی کورس میں شرکت کرنے کی غرض سے میں پہلی مرتبہ تھائی لینڈ گیا تو میرے ذہن میں اس ملک کا وہی امیج تھا جو ہر شخص کے ذہن میں ہوتا ہے مگر تین ہفتو ں کے بعد اس میں اتنی تبدیلی ضرور آئی کہ میں نے ہر اُس شخص کے سامنے تھائی لینڈ کی ’’مارکیٹنگ‘‘ کی جسے دنیا گھومنے پھرنے کا تھوڑا سا بھی شوق تھا۔ اُس وقت تین باتوں کی وجہ سے تھائی لینڈ نے میرا دل موہ لیا تھا، پہلی یہ کہ لوگ بہت اچھے ہیں، آپ کے آگے بچھ بچھ جاتے ہیں، بزرگوں کی تعظیم کی روایت کلچر کا حصہ ہے، بچے بڑوں کے آگے سے گزریں تو سر جھکا کے گزرتے ہیں، زبان کا مسئلہ ضرور ہے، انگریزی کم ہی سمجھ آتی ہے مگر اس پر یوں شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں گویا اُن سے کوئی جرم عظیم سرزرد ہو گیا ہو، غرور اور اکڑ چھو کر بھی نہیں گزری، انکساری اور نیازمندی اُن کے مزاج کا حصہ ہے۔ دوسری وجہ ملک بہت سستا ہے، خریداری کی جنت ہے، شاپنگ پیراڈائز، اس وقت ایک روپیہ ڈیڑھ تھائی بھات کے برابر تھا، آپ خریداری کرنے جاتے تو مہنگائی کا احساس نہ ہوتا، چیزیں کم قیمت بھی تھیں اور معیار بھی اعلیٰ، پہلی نظر میں ہی بنکاک کے شاپنگ مالز اپنے ہم پلہ شہروں سے مختلف دکھائی دیئے، مثلاً دبئی اور کوالالمپور کے شاپنگ مالز میں کوئی فرق نہیں لیکن بنکاک میں انفرادیت جھلکتی تھی۔ تیسری وجہ ٹورازم، اُن تین ہفتوں میں تھائی لینڈ کی چنگ مائی سے چنگ رائی تک سیر کے دوران میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ کم پیسوں میں سیاحت کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں، یہاں سمندر، پہاڑ، میدان سب ہیں، گولڈن ٹرائی اینگل ہے جو تین ممالک تھائی لینڈ، میانمار اور لاوس کا سنگم ہے، ٹورازم کا کلچر موجود ہے کیونکہ یہ اُن کی ریڑھ کی ہڈی ہے، امریکہ یورپ سمیت پوری دنیا سے سیاح اپنے خوبصورت ملک چھوڑ کر یہاں آتے ہیں اور چھٹیاں گزار کر واپس چلے جاتے ہیں مگر پھر تمام عمر تھائی لینڈ اُن کے دل سے نہیں نکلتا۔
بارہ برس بعد آج جب میں نے بنکاک کے سوورن بھومی ائیرپورٹ کے باہر قدم رکھا تو ایک عجیب سے تبدیلی فضا میں نے محسوس کی، شاید یہ میرا وہم تھا، بارہ برس قبل کے بنکاک کا جو نقشہ میرے ذہن میں تھا اُس کے مطابق بنکاک ہمارے شہروں کے مقابلے میں زیادہ جدید اور ترقی یافتہ تھا، تاہم اس مرتبہ مجھے یوں لگا جیسے بنکاک وہیں کھڑا ہے جبکہ ہمارے شہروں نے ان بارہ برسوں نے ترقی کی سمت میں جست لگائی ہے۔ بنکاک کچھ بے ترتیب اور بے ہنگم دکھائی دیا، تعمیرات کا گُنجل دیکھ کر لگتا ہے جیسے نقشہ پاس کروانے کے ضمن میں بنکاک انتظامیہ کی پالیسی کافی ’’بزنس فرینڈلی‘‘ ہے، عمارتیں ایک دوسرے کے اندر مدغم ہیں اور اسکائی ٹرین کی وجہ سے آپ شہر کا منظر بھی ٹھیک طریقے سے نہیں دیکھ پاتے، گھٹن کا احساس ہوتا ہے،جا بجا کھمبوں کے گرد لپٹی ہوئی بجلی کی لٹکتی ہوئی تاریں بنکاک کا امیج مزید خراب کر رہی ہیں، فضا میں ایک خاص قسم کی باس ہے جو غالباً تھائی کھانوں کی وجہ سے ہے جنہیں چکھا بھی نہیں جا سکتا، کٹے ہوئے پھل البتہ نہایت صاف ستھرے انداز میں پلاسٹک میں لپٹے ہوئے مل جاتے ہیں، آم کی خوشنما قاشیں کھائیں، مٹھاس نے طبیعت شاد کردی۔ بنکاک کی سڑکیں اور گلیاں ٹھیلوں اور ریڑھیوں سے اٹی پڑی ہیں، رہی سہی کسر ناجائز تجاوزات نے پوری کردی ہے جنہیں دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ ابھی کچھ ملک باقی ہیں جہاں میں جنہیں ہم اپنے جیسا سمجھ سکتے ہیں۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے ہمارے شہر دنیا کے بین الاقوامی شہروں کے مقابلے میں کم از کم دو حوالوں سے ضرور کم تر ہیں، ایک ہوائی اڈہ اور دوسرا ہوٹل۔ بنکاک کا ہوائی اڈہ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک عالیشان ہوائی اڈہ ہے اور ہر بین الاقوامی ہوائی اڈے کی طرح یہاں سے شہر کو جانے کے لئے بس، ٹرین، ٹیکسی، وغیرہ کی سہولت موجود ہے، ہمارے تینوں ائیرپورٹس فی الحال ایسی کسی سہولت دینے سے پرہیز کرتے ہیں، آپ کو ائیرپورٹ سے ٹیکسی یا ذاتی گاڑی میں ہی آنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہوٹل انڈسٹری بھی یہا ں اپنے جوبن پر ہے، بنکاک کی ایک شاہراہ پر جتنے ہوٹل ہیں اتنے غالباً لاہور اور کراچی کو ملا کر بھی نہیں ہوں گے۔ یار جانی گل نوخیز اختر اور اجمل شاہ دین کی ہمرکابی میں بنکاک کی سڑکیں ناپتے ہوئے ایک بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ میں تھائی لینڈ کے بارے میں جو بات بھی کرتا ہوں درست کرتا ہوں لہٰذا وہ میری رائے کے پابند ہیں،نوخیز نے تو یہاں تک کہا کہ آپ تھائی لینڈ ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر معاملے میں جو کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔اب سنا ہے کہ گل نوخیز اختر نے اپنے کالم میں میرے اس جمہوری مزاج کی تحسین کی ہے، اُن سے یہی امید تھی، یوں بھی دوسرا کوئی آپشن اُن کے پاس نہیں تھا۔
بنکاک بہرحال ایک عجیب شہر ہے، یہاں سرمستی ہے، زندگی ہے، روشنیاں ہیں، بلند و بالا عمارتیں ہیں، کلب ہیں، شاندار ہوٹل اور ریستوران ہیں، دبئی کے برعکس یہ شہر عام آدمی کا شہر بھی ہے اور رئوسا کا بھی، یہ شہر زندگی کی علامت بھی ہے اور غلامی کی بھی۔ تاہم یہ المیہ صرف بنکاک کا ہی نہیں جکارتہ اور کوالالمپور جیسے شہروں کا بھی ہے مگر بنکاک کی چکاچوند کے پیچھے اذیت میں سسکتی زندگیاں ہیں جن کے تعاقب میں بھوک لگی ہے، رات کو یہ زندگیاں تھرکتی ہیں اور یوں بنکاک ترقی کا ایک نقاب اوڑھ لیتا ہے، یورپی سیاح بنکاک کا یہی روپ دیکھنا چاہتے ہیں گو کہ اپنے ممالک میں اِن باتوں کو وہ معاشرے کے لئے نامناسب سمجھ کر خلاف قانون قرار دے چکے ہیں۔ فرعون کے زمانے کی غلامی کے دن گئے، اب غلامی کی ترقی یافتہ مگر بدنما شکل انہی جدید شہروں کے شاپنگ مالز اور کلبوں میں کام کرتی لڑکیاں اور عورتیں ہیں، عمر کی جس میں کوئی حد نہیں، آپ کی ٹیبل پر سرو کرنے والی سترہ برس کی لڑکی ممکن ہے ایک بچے کی ماں ہو جس کا باپ اسے چھوڑ چکا ہو یا کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اٹھانے والی ساٹھ سال کی بڑھیا جس نے اگلے روز کا کھانا اسی کوڑے سے ڈھونڈنا ہو۔ تھائی لینڈ بارہ برس قبل بھی شاید ایسا ہی تھا مگر اُس وقت یہ احساس اتنی شدت سے نہیں ہوا تھا، اب بنکاک جیسے شہروں میں انسانیت کی تذلیل دیکھ کر ایک نا معلوم سا کرب رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے، ان زندگیوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ کسی ایسے گھر میں پیدا ہو گئیں جہاں ان کے مقدر میں وہ تمام اذیتیں لکھی جا چکی تھیں جن کا محض تصور کرکے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ ممکن ہے یہ میرا واہمہ ہو، شاید اسی کو ترقی کو کہتے ہوں، اگر یہ ترقی ہے تو غلامی نہ جانے کیا ہوگی!


.
تازہ ترین