• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نے اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے تک جو حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں ، وہ صرف تیسری دنیا کے ملکوں میں ممکن ہیں اور اس وقت وہ جن مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ، وہ بھی تیسری دنیا کے ملکوں کا خاصا ہیں ۔ ترقی پذیر اور سیاسی طور پر غیر مستحکم پاکستان جیسے ممالک میں یہ امکانات بھی موجود ہیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ان مشکلات سے باہر نکل آئیں اور پہلے کی طرح حالات کو اپنےلئے سازگار بنالیں اور یہ امکانات بھی موجود ہیں کہ وہ بحرانوں میں دھنستے چلے جائیں اور ان کا انجام بھی تیسری دنیا کے بعض رہنماؤں جیسا ہو کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک کی کیمسٹری بہت پیچیدہ ہے لیکن یہاں جاری عوامل کچھ طبعی قوانین کے تابع ہیں ۔
پاناما اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے تقریباً ایک جیسی سرخیاں شائع کیں کہ وزیر اعظم پاکستان بال بال بچ گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاناما اسکینڈل نے میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی جان نہیں چھوڑی ہے ۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلے نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف ایک سیاسی تحریک کے حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ پاکستان کے تمام منتخب ایوانوں میں ’’ گو نواز گو ‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کے سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان کی ان کے خلاف سیاسی مہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے تحلیل ( Defuse ) نہیں ہوئی بلکہ یہ مہم ایک تحریک میں تبدیل ہو رہی ہے ۔ پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پہلے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دیا اور اب وزیر اعظم کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا یہ ہے کہ ملک بھر کے وکلا وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹانے کے لئے تحریک میں حصہ لیں گے اور یہ تحریک 2007 کی عدلیہ کی آزادی کی تحریک سے بڑی ہو گی ۔ 2014 میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے تاریخی دھرنے کے دوران وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو بچانے میں اہم کردار ادا کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ’’ گو نواز گو ‘‘ تحریک کا آغاز کر دیا ہے ۔ آئندہ عام انتخابات میں کم وقت رہ جانے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان پیپلز پارٹی اور وکلاء کی تحریکیں زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہیں اور یہ پاکستان کی سیاست کو ایک نئے رخ پر ڈال سکتی ہیں ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کی جائیدادوں اور اثاثہ جات کی مزید تحقیقات کے لئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی) جیسے ہی اپنا کام شروع کرے گی ، ملک کا سیاسی درجہ حرارت بڑھ جائے گا اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لئے زیادہ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آنا ابھی ہے ۔ یہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ان مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ ان حالات میں ایک اور اسکینڈل سامنے آ گیا ہے۔ نہ جانے وزیر اعظم کو کیا مجبوری ہو ئی کہ انہوں نے بھارت کے ارب پتی تاجر اور اسٹیل ٹائیکون سجن جندال سے پاکستان میں ملاقات کی ۔ سجن جندال بھارت کی ہائی پروفائل شخصیت ہیں ۔ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں ، ان کی موجودگی کو وہاں نہ صرف محسوس کیا جاتا ہے بلکہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی از خود آتی ہے کہ جندال کسی خصوصی مشن پر ہوں گے ۔ سجن جندال کے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ عالمی اشرافیہ کے ساتھ گہرے روابط ہیں ۔ وہ بھارت کے لئے بہت اہم مشن انجام دے چکے ہیں اور خفیہ سفارت کاری میں ان کا بڑا نام ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ان سے مری میں اپنی رہائش گاہ پر طویل ملاقات کی ۔ اس قدر ہائی پروفائل شخصیت کو پاکستان کا ویزہ کہاں سے ملا اور وہ کیسے پاکستان میں داخل ہوئے ، یہ بھی اہم سوالات ہیں ۔ سجن جندال کا دورہ پاکستان اور وزیر اعظم سے ان کی ملاقات بھی خود وزیر اعظم نواز شریف کے لئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے ۔ اس کے کئی اسباب ہیں ، جن کا تذکرہ میڈیا میں ہو رہا ہے۔
یہ معاملہ یہاں نہیں رکا ۔ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ اور سینئر سیاست دان ریاض پیرزادہ نے ا پنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور یہ الزام عائد کیا ہے کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کرپشن میں ملوث ہیں ۔ ریاض پیرزادہ جیسے سیاستدان اگر اس طرح کا ردعمل ظاہر کرنے لگیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں ۔
اس وقت جو مشکلات وزیر اعظم نواز شریف کے لئے پیدا ہوئی ہیں ، ان کے بارے میں کچھ عرصہ قبل سوچنا ممکن بھی نہیں تھا ۔ 12 اکتوبر 1999 کو ایک فوجی جرنیل نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا ، انہیں وزیر اعظم ہاؤس سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی چلا لیکن وہ حالات اس قدر خراب نہیں تھے ، جس قدر آج حالات ان کے خلاف ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف پاکستان کے مقتدر حلقوں کی کیمسٹری کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن انہیں شاید ابھی تک اس بات کا احساس نہیں ہو رہا کہ یہ مقتدر حلقے خود اپنے داخلی تضادات کا شکار ہیں ۔ شریف خاندان کی دولت کے بارے میں سوالات کا اس مرحلے پر پیدا ہونا اس امر کا ثبوت ہے ۔ ایک زمانہ تھا ، جب پیپلز پارٹی کے مقابلے میں میاں محمد نواز شریف پاکستان کے مقتدر حلقوں کا واحد سیاسی چہرہ تھے اور وہ حب الوطنی کا معیار تھے ۔ اب انہیں ڈان لیکس کی انکوائری کا سامنا ہے اور انہیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دوست قرار دیا جا رہا ہے ۔ سجن جندال سے ملاقات پر جس طرح میاں محمد نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس طرح پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ پاکستان کے مقتدر حلقے صرف اپنے سیاسی چہرے میاں محمد نواز سے لاتعلق نہیں ہو رہے بلکہ وہ اپنے ماضی کے نظریاتی اتحادی ، نسلی ، لسانی اور فرقہ ورانہ گروہوں سے بھی برسرپیکار ہیں ۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کے داخلی تضادات کی وجہ سے وہ زمین کھسکتی جا رہی ہے ، جس پر میاں محمد نواز شریف کے پاؤں سختی سے جمے ہوئے تھے ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں مقتدر حلقوں کے حمایت یافتہ سیاست دانوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے ۔ وہاں حقیقی مقتدر حلقوں کے داخلی تضادات تاریخ کے ارتقائی عمل کا لازمی نتیجہ ہیں ۔



.
تازہ ترین