• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
استادوں کےاستاد جناب انور مسعود صاحب نے ملکی قرضوں کی صورت حال دیکھ کر کچھ یوں طنز کیا تھا؎
قرض پہ قرض لے کہ ہنستے ہو
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مگر اس وقت جو الزامات کی فضا چل رہی ہے اس میں اس شعر کو ہم کچھ یوں بھی پڑھ سکتے ہیں؎
جھوٹ پہ جھوٹ کہہ کے پھنستے ہو
شرم تم کو مگر نہیں آتی!
اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولا جارہا ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنے ان لیڈروں کو ہم کیا کہیں۔ پاناما کیس میں تینوں ججوں نے یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم صادق اور امین ہو گئے ہیں۔ دو ججوں نے یہ فیصلہ دیا کہ وزیراعظم جھوٹے ہیں۔ انہوں نے قطری خط سمیت جو بھی ثبوت عدالت میں پیش کئے وہ جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اس میں ان کی طرف سے اور ان کے بچوں کی طرف سے پیش ہونے والے وکلا کے دلائل سمیت تمام کاغذی حساب کتاب وغیرہ شامل ہیں جنہیں جھوٹ قرار دیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر ان دو سینئر جج صاحبان نے انہیں جرم کا مرتکب قرار دیا۔ باقی تین ججوں نے بھی وزیراعظم کو کلیئر نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ جو ثبوت ان کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں ان کی مزید انکوائری ہونی چاہئے۔ اس بات کو لے کر جو بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں، وزیراعظم اور ان کے حامیوں خاص طور پر دانیال عزیز، مریم اورنگزیب اور طلال چوہدری کی طرف سے یہ کہتے ہوئے کہ وزیراعظم صاحب کو صادق اور امین قرار دے دیا گیا ہے، بھی جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اب اگر اس کے جواب میں عمران خان صاحب کی طرف سے یہ کہاجائے کہ وزیراعظم اور ان کے بھائی قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ انہوں نے کبھی رشوت نہیںدی تو جواب یہ دیاجاتا ہے کہ قرآن پاک عمل کے لئے ہے قسم کھانے کے لئے نہیں۔
میں ذاتی طور پر قرآن مجید کو اسی طر ح جھوٹ اور سچ کے معاملے میں فیصلہ کرنے کے لئے بیچ میں لانے کا حامی نہیں ہوں اس لئے کہ ہم نے عدالتوں میں دیکھ رکھا ہے کہ یہ جو پاکستانی مسلمان ہیں یہ اکثر مقدمات میں قرآن اٹھا کر جھوٹ ہی بولتے ہیں۔ خود ہمار ےایک سابق صدر زرداری صاحب معاہدوں سے پھر جانے کے بعد یہ فرماتے رہے کہ وہ معاہدے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں جن پر عملدرآمد کیاجائے ، اس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے دل میں قرآن و حدیث کی کیا اہمیت ہے؟
اب جھوٹ کی اسی فضا میں ایک نعرہ بلند ہوا ہے کہ عمران خان صاحب کو دس ارب روپے کی پیشکش ہوئی ہے۔ عمران خان کی اس بات کا کم از کم میں فوری یقین کرلیتا اگر ماضی میں انہوں نے 35پنکچر والی حماقت نہ کی ہوتی۔ پوری قوم کو یہ یقین اس طرح دلا کر گویا 35پنکچر کے بار ےمیں ان کے پاس مکمل ثبوت ہیں، وہ بعد میں یہ کہہ کر مکر گئے کہ یہ تو صرف ایک سیاسی بیان تھا۔ اس طرح کے بیان کے بعد اگر کوئی ان کے اس بیان پر بھی یقین نہ کرے کہ انہیں واقعی 10ارب کی پیشکش ہوئی ہوگی تو شاید وہ حق بجانب ہوگا۔ اسی طرح کی ایک اسٹیٹ منٹ صوبہ خیبرپختونخوا میں احتساب کے حوالے سے اورپھر 1ارب درخت لگانے کے دعوئوں کےبارے میں بھی ہے جس کی وجہ سے لوگ خان صاحب پر پورا یقین نہیں رکھتے۔
یہ تمام صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے جب نوازشریف اورزرداری صاحب جھوٹ کے بارے میں ارشادات فرماتے ہیں۔ ابھی جمعہ کے روز نوازشریف صاحب نے فرمایا کہ وہ ’’جھوٹوں کو کٹہرے میں لائیں گے‘‘ ۔
سیاسی جوڑتوڑ اور پھر پاناما لیکس کے حوالے سے ان کے بیانات خواہ وہ اسمبلی کے فلور پر ہوں یا مختلف اجتماعات میں، تقریروں میں اس میں تضادات پائے جاتے ہیں خاص طور پر قومی اسمبلی میں ان کے اپنے حساب کتاب کے حوالے سےبیان کو خودان کے ہی ایک وکیل نے سیاسی بیان قراردیا تھا۔ اس تکون کے تیسرے پلڑے میں بیٹھے زرداری صاحب کے بارے میںاگر ووٹنگ کرائی جائے کہ کتنے لوگ انہیں صادق اور امین سمجھتے ہیں تو شاید وہ دس فیصد بھی ووٹ حاصل نہ کرسکیں۔ یہ بھی گزشتہ دنوں مختلف اجتماعات میں نوازلیگ اور عمران خان دونوں کو جھوٹے قرار دیتے رہے ہیں۔ معلوم نہیں ایسا کرتے ہوئے وہ کس موڈ اور کس کیفیت میں ہوتے ہیں کہ وہ اپنےبار ےمیں لوگوں کے مسٹر ٹین پرسینٹ کے الزامات بھی بھول جاتے ہیں۔ ان کو بھی اور پھر نواز فیملی کو بھی جسٹس کھوسہ کے اس بیان کو جو انہو ںنے ’’گاڈفادر‘‘ کے حوالے سے دیا کہ ہر دولت کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ہوتا ہے، کو بھولنا نہیں چاہئے۔ اس طرح کی دولت اکٹھا ہونا یقیناً بڑے بڑے جھوٹ کے باعث ہی ہوسکتا ہے۔نوازشریف صاحب نے کتنا سچ بولا اور کتنا جھوٹ؟ اس کا فیصلہ تو اگر JIT نے غیرجانبداری سے تحقیق کی تو دو ماہ میں ہو جائے گا لیکن عمران خان، زرداری صاحب اور نوازشریف صاحب کے حامیوں خاص طور پر طلال چوہدری اور دانیال عزیزکے بار ےمیں بھی کچھ فیصلے ہونا ضروری ہیں۔ اس حوالے سے جس طرح سرکاری فنڈز اور پلیٹ فارمز جن میں پی ٹی وی کا بھی شمار ہوتا ہے کو ایک فیملی کو بچانے کے لئے استعمال کیاگیا ہے، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے میں اگر لوگوں نے پی ٹی وی کا گویا بائیکاٹ کر رکھا ہے، بالکل درست ہے۔ لیکن پی ٹی وی کی یہ روایت کوئی نئی تو نہیں۔ ایوب خان، ضیاالحق، پرویز مشرف وغیرہ کے اور دیگر سیاسی ادوار میں پی ٹی وی پر صرف جھوٹ ہی بولا گیاہے۔



.
تازہ ترین