• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیوروکریسی کسی بھی حکومت کے لئے آنکھ اور کان کا درجہ رکھتی ہے ۔لیکن دماغ کا استعمال کرنا ارباب و اختیار کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔گزشتہ 70سالوں کے دوران مختلف ادوار آئے ،وطن عزیز نے چار مارشل لا کابھی سامنا کیا ۔مگر بیوروکریسی کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہی۔ایوب خان نے بھی جب اقتدار سنبھالا تو انہی سول افسران کی مدد سے اپنے اقتدا ر کو وسعت دینے کی ٹھانی اور من مانی ریفارمز کرتے رہے ۔یحییٰ خان نے بھی اپنے اقتدا ر کو بچانے کے لیے سول افسران کا ہی سہارا لیا۔مشرف آمر نے جمہوریت پر شب خون مارا تو اقتدار پر کنٹرو ل قائم رکھنا سب سے بڑا چیلنج تھا۔لیکن جلد ہی انہیں بھی بیوروکریسی کی اہمیت سمجھ آگئی اور انہوں نے دانیال عزیز صاحب کے ذریعے ایسی اصلاحات کرنے کی ٹھانی ۔جس کا مقصد اپنے اقتدار کو طول دینے کے سوا کچھ نہیں تھا۔گزشتہ 70سالوں میں جس ایک شخص نے بیوروکریسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔اس کا نام پرویز مشرف ہے۔انگریزوں کا 100سالہ آزمودہ نظام صرف اپنی ذہنی اختراع کی وجہ سے بدل ڈالا۔سابق فوجی آمر کے دور میں سول سروس آف پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔جو شاید اگلے پچاس سال بھی ٹھیک نہ ہوسکے۔بہرحال با ت یہاں سول افسران کی اہمیت کے حوالے سے کی جارہی ہے۔جمہوری دور ہو یا پھر آمریت سول افسران ہمیشہ حکومت کے لئے ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں۔ذاتی طور پر بیوروکریسی کے بہت سے اقدامات کا ناقد رہا ہوں۔مگر آج کے دن تک پاکستان میں بیوروکریسی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔گزشتہ 70سال کے دوران ہم ایسا کوئی بھی نظام لانے میں ناکام رہے ،جو بیوروکریسی کی جگہ لے سکے۔بیوروکریسی کی کوتاہیاں بھی اپنی جگہ کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایمپریل سول سروس کا وارث ایسے سمجھا کہ آج پبلک سروس کے بجائے پبلک ایڈمن کا ماڈل اپنا چکے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ریاست کی افادیت بیوروکریسی کے ذریعے نمایاں ہوتی ہے۔
آج کا کالم لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ جہاں پر ہم سول افسران کی خامیاں اور کرپٹ افسران کی کارگزاری کا جائزہ لیتے ہیں ،وہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ دیانتدار اور محنتی سول افسران کا دفاع بھی کریں ۔کیونکہ ایماندار افسر پوری نوکری میں صرف عزت ہی کماتا ہے اور اگر کوئی شخص اٹھ کر اس کی عزت ہی تا ر تار کرنے کی کوشش کرے تو پھر اس کے پاس کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ایمانداری اور مضبوط کردار کا حامل ہونا بہت بڑا وصف ہے۔ذاتی رائے ہے کہ اگر کوئی شخص ایماندار اور مضبوط ساکھ کا حامل ہو تو اس کی بڑی سے بڑی غلطی معاف کردینی چاہئے۔کیونکہ اپنے نفس پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔یہ بہت مشکل اور کٹھن مشق ہوتی ہے۔جو شخص اپنے منصب کے ساتھ دیانتداری برتتے ہوئے پورے اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے اور لاکھوں روپے تنخواہ کے عوض اربوں روپے کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی بہر حال قدر کرنی چاہئے۔آج ایک ایسا معاملہ سامنے آیا کہ جس کو لے کر سوچوں میں گم تھا کہ ایک شعر یا دآگیا۔
میں چپ رہا تو مجھے ماردے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
معاملہ وزیراعظم کے سیکرٹری د اور مستعفی وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کا ہے۔ریاض پیرزادہ نے مستعفی ہونے سے قبل اپنی گفتگو میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو کےاس سینئر افسر پر ایسے الزامات لگائے جو ان کے منصب کو زیب نہیں دیتے تھے۔فواد حسن فواد اس وقت وزیراعظم نوازشریف کے سیکرٹری ہیں۔ملکی تاریخ کے ان چند بیوروکریٹس میں سے ہیں جنہیں بہت شہرت ملی ہے۔ناقدین نے تنقید بھی کی اور بہت سو ںنے داد بھی دی مگر وہ ہربات سے بے نیاز ہوکر اپنے کام میں لگے رہے۔آج صبح جب قومی اخبارات میں مسلم لیگ ق کو خیربا دکہہ کر حکمران جماعت مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے ریا ض پیرزادہ کی پریس کانفرنس پڑھ رہا تھا تو بہت تکلیف ہوئی۔اسی طرح سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ پر کرپشن کا الزام لگانا مضحکہ خیز ہے۔جس شخص نے سی ڈی اے میں رہ کر ملک کے صدر اور وزیراعظم کے کہنے پر ناجائز پلاٹ دینے سے انکار کردیاتھا ،آج ان پر تنقید کی جارہی ہے۔اچھی شہرت اور مضبوط ساکھ ہی تھی کہ ان جیسے زیرک افسر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے اپنا رجسٹرار لگایا تھا۔جبکہ وزیر صاحب کی توپوں کا رخ وزیراعظم کے سیکرٹر ی کی طرف بھی مڑا۔افسوس ہوتا ہے کہ آج ایسے لوگ تنقید کررہے ہیں جن کی اپنی ساکھ کے بارے میں کچھ نہ ہی لکھوں تو اچھا ہے۔سیکرٹری صاحب کو زیادہ تو نہیں جانتا لیکن گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد ایک بین الاقوامی کمپنی کا کنسلٹنٹ اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں مل گیا۔موصوف کو زیادہ نہیں جانتا تھا لیکن دوسال قبل دوحا میں ہونے والی بین الاقوامی بزنس کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی۔تفصیل پوچھی تو کہنے لگے کہ سی پیک کے لئے ہماری کمپنی یہاں پاکستان میں کام کررہی ہے اور میں ان کا کنسلٹنٹ ہوں۔سرکاری معاملات پر گفتگو ہوئی تو کہنے لگے کہ ہماری جیسی کئی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کے ٹھیکے ملے ہیں۔تمام فیصلے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی مشاورت سے ہوتے ہیں۔لیکن مجھ سمیت کئی کمپنیوں کے پاکستان میں نمائندوں نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا۔صرف ضروری دستاویزات بھیجتے رہے ہیں۔میرٹ پر ہمارا کام ہورہا ہے۔موصوف کنسلٹنٹ کہنے لگے کہ آج حکومتی وزیر کی پریس کانفرنس دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ ان کی وزارتوں میں چند ارب روپے ہوتے ہیں تو کئی کرپشن اور بے ضابطگیوں کے کیسز بن جاتے ہیں۔جو تھوڑی بہت کسر رہ جائے وہ آڈٹ پیرے پوری کردیتے ہیں۔آج یہ لوگ ایسے شخص پر انگلی اٹھاتے ہیں جس نے اربوں ڈالر کے منصوبے مختلف کمپنیوں کو دئیے مگر آج تک کسی کے مالک یا بااثر شخص سے ملاقات تو دور کی بات رابطے کی بھی کوشش نہیں کی۔کسی کے کام کرنے کے طریقے سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر شرفاکی پگڑی اچھالنا بہت غلط ہے۔جو وفاقی وزیر صاحب پرنسپل سیکرٹری پر تنقیدکرکے وزیراعظم کو آئینہ دکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں کہ وہ مسلم لیگ ن میں چار سال قبل آئے ہیں جبکہ نوازشریف فواد حسن فوادکو1997سے جانتے ہیں۔جس نوجوان افسر نے بطور ڈی سی او لاہور کوئی داغ نہ چھوڑا ہو وہ آج ایسا کام کرے گا۔ نوازشریف آج تیسری مرتبہ وزیراعظم ہیں۔سرکاری افسران اور سیاستدانوں کو شاید ہی ان سے زیادہ کوئی سمجھتا ہو۔لیکن میں نے آج ایماندار افسران کے لئے قلم اس لئے اٹھایا ہے کہ جن اخبارات میں ان پر سنگین الزام کی خبر لگی اور ان کے بچوں نے پڑھی کل وہ اپنے ایماندار باپ کے حوالے سے حقائق پڑھ کر فخر سے کہہ سکیں کہ اگر کوئی ہم پرغلط الزام لگاتا ہے تو آج ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو اللہ کی رضا کے لئے ہمارا دفاع کرتے ہیں۔



.
تازہ ترین