• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں احباب اکثر یہ پوچھتے ہیں کہ ملکی حالات کدھر جا رہے ہیں؟حکومت کا کیا بنے گا؟ ڈان لیکس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟سول ملٹری تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے؟ وغیرہ ان سوالات کے جو بھی جوابات دیئے جائیں ایک بات واضح ہے کہ وطنِ عزیز کے سیاسی حالات کی مناسبت سے ایک نوع کی بے یقینی ضرور پائی جاتی ہے۔ لوگوں کو ایسے خدشات ہیں کہ مبادا حالات کب کتنے بگڑ جائیں؟ قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہاں مضبوط آمریتیں تو قائم ہو سکتی ہیں مضبوط جمہوریتیں گوارا کرنا مشکل ہے۔ مضبوط ہوتی جمہوریت سے گویا خدا واسطے کا بیر ہے۔ کئی حلقوں کو ان سے ایک حسد، جلن اور کینہ محسوس ہوتا ہے۔ ایک لطیفہ بیان کیا جاتا ہے کہ دوزخ کے امریکی، برطانوی، فرینچ اور جرمن کنووں پر بہت سے فرشتے اور دربان کھڑے تھے جو باہر نکلنے والوں کو اندر دھکیل رہے تھے جبکہ پاکستانی کنویں پر کوئی فرشتہ یا دربان نہیں کھڑا تھا۔ جس سے دیکھنے والے کو حیرت ہوئی کہ کیسے شریف لوگ ہیں جو باہر نکل ہی نہیں رہے اور نہ ان کے اوپر کسی نگہبان کو کھڑے کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے مگر جب اندر جھانک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ماشاء اللہ یہ لوگ تو ایک دوسرے کی ٹانگیں اتنی سرگرمی سے کھینچ رہے ہیں کہ کسی دربان کو باہر کھڑے کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
کچھ یہی حال عدم استحکام کی شکار ہماری جمہوریت کا بھی ہے جسے نیچا دکھانے کے لئے اپنے ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے بعد امید بندھی تھی کہ شاید ہماری سوچوں کے دھارے بدل جائیں گے لیکن پرانے لچھن کہاں بدلتے ہیں۔ گیمیں کھیلنے والے پرانے پاپی بھلا ایسی کسی مثبت سوچ کو کامیاب ہوتا کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سو جلد ہی تھرڈ آپشن کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کسی کٹھ پتلی کا اہتمام کیا گیا۔ ایک ناکام ہوا تو دوسرا لایا گیا۔ کھلاڑی نہ ملا تو اناڑی ہی سہی۔ بہرکیف چوہے بلی کا یہ کھیل جاری ہے اور جاری رہے گا تا وقتیکہ کٹھ پتلیوں کی تابع مہمل جمہوریت جلوہ گر نہ ہو جائے حالانکہ میثاق جمہوریت والے بھی طاقتوروں کے سامنے سجدہ ریز ہیں لیکن مصنوعی سجدوں کی قبولیت بھی مصنوعی ہوتی ہے۔ بہرحال تمہید طولانی ہو گئی حالانکہ ہم متذکرہ بالا سوالات کے حوالے سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ملکی حالات خرابی یا عدم استحکام کی طرف ہی گامزن ہیں۔ رہ گئی ن لیگ کی حکومت تو وہ ہمارے اندازے کے مطابق جتنی مرضی سڑکیں بنالے خود ایک رسے پر ہی چل رہی ہے۔ ایسی صورت میں بداحتیاطی یا چھیڑخانی کا نتیجہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈان لیکس کا نتیجہ بھی پاناما لیکس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ کچھ اور نکلے نہ نکلے یاروں نے دبا خوب رکھا ہے۔ ورنہ سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہی بات’’ فیض احمد فیض‘‘ کو اتنی ناگوار کیوں گزرتی۔ مجبوری و بے کسی کی اس سے بڑی صورت کیا ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے بھی سر تسلیم خم ہوں۔ اپنے جذبہ خلوص کو ثابت کرنے کے لئے چھری اپنے لاڈلے کی گردن پر رکھ دیں۔
رہ گئے سول ملٹری تعلقات وہ تو ساری دنیا کو نظر آرہے ہیں کہ پہلے کی نسبت بہت اچھے ہیں۔ ایک پیج پر ہونے کی یکطرفہ تکرار تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ بہت سی دیدہ و نادیدہ ہستیاں ان پر ترچھی نظریں ڈال رہی ہیں۔ یاروں نے تو رشتے داریوں کے طعنے بھی دے دیئے ہیں جس پر باقاعدہ وضاحتیں جاری کرنے کی نوبت آئی ہے اور اب 202ویں اجلاس میں یہ بھی کہنا پڑا ہے کہ ہم شفاف اور قانونی کردار ادا کرتے ہوئےJIT کے ذریعے سپریم جوڈیشری کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔ باقی یار لوگ ایک بات سے سو افسانے بنالیتے ہیں تو یہ اُن کی مرضی ہے افسانے گھڑنے کے لئے ہی تو بیچارے کھلاڑی کئی چھلانگیں مار رہے ہیں۔ درخواستیں کرکے ملاقاتیں فرما رہے ہیں۔ فسانہ بنانے کے لئے اگر بہانہ درکار ہوتا ہے تو ملاقاتیں بھی اسی نوع کا بہانہ ہیں۔ رنگ آمیز ی کے لئے رنگ سازوں یا رنگ بازوں کی کوئی کمی پہلے تھی نہ اب ہے۔ آج کل کی دوستیاں بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں بس مفادات ٹکرانے کی دیر ہوتی ہے۔ غلط فہمیاں پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ تو مسابقت اور مقابلے کا دور ہے ہر جگہ دوڑ لگی ہوئی ہے۔
پاکیٔ داماں کی حکایت کوئی جتنی مرضی بڑھا لے مواقع میسر آنے پر حقائق ازخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں بندہ اپنی کمپنی سے پہچانا جاتا ہے۔ شریف آدمی جنہیں منہ لگانے کے قابل خیال نہیں کرتا دوسری جانب لپکتے ہی وہ ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔ ن لیگ کے رگیدے ہوئے کو پی پی چوم چاٹ رہی ہے تو پی پی کے ٹھکرائے ہوئے کو تھرڈ آپشن والے جھولی میں بٹھا کر بلائیں لے رہے ہیں۔ اسی سے معیار اور ذہنی افلاس کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ کیا کرپشن اور کیا کرپٹ لوگوں کے نعرے، سب اول و آخر دھوکا ہیں۔ جب ہاتھ نہیں پہنچتا تو کڑوی گولی قرار دے کر پرہیزگاری کا نعرہ الاپا جاتا ہے۔ شرفاء کی حکومت کے خلاف مقابلے بازی کے نعروں کی رمز کو بھی سمجھا جانا چاہئے۔ یہ سستی شہرت و مقبولیت کا وہ مجرب نسخہ ہے جس سے ہر کوئی مستفیض ہونا چاہتا ہے۔ آج کے دور میں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو جتنا بڑا نعرے باز یا زبان دراز ہو گا اتنا بڑا لیڈر گردانا جائے گا۔ سو یہ بھی مسابقت کی ایک فضا ہے اور اس کے پیچھے کئی منصوبہ سازوں کی انویسٹمنٹ کارفرما ہے ورنہ کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربہ...... جیب میں کل 35اعداد رکھنے والا بھاری میجارٹی کو جس طرح چیلنج کر رہا ہے کیا اس کا نام جمہوریت اور انصاف ہے؟ جبکہ یکے بعد دیگرے انتخابی ناکامیاں اُس کے سر پر یوں برس رہی ہوں جیسے موسلادھار بارش سے قبل اولے۔
وطنِ عزیز میں ہماری اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ ہم موقع بے موقع ایجی ٹیشن کی سیاست کو قومی فلاح کی واحد راہ بتلا رہے ہوتے ہیں۔ الزام تراشی اور منافرت کی سیاست ہمارا وتیرہ ہے۔ طاقتوروں کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہماری حب الوطنی کا ثبوت ہے کیونکہ ہم نے یہ عہد کر لیا ہے کہ خود کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔ قوم کے حقیقی مسائل یا ایشوز جائیں بھاڑ میں ہمیں تو بس ایک عدد وزارت عظمیٰ چاہئے کیونکہ ہمیں اپنی بلے بلے کروانی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہماری یہ سوچ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ ہماری جدوجہد کا محور ہوس و لالچ نہیں استغنا ہونا چاہئے بلند عزائم اور سچی لگن کے ساتھ ایسے آدرش و وچار ہونے چاہئیں جن کے سامنے خواہش اقتدار بھی سرنگوں ہو جائے۔ یہی اپروچ عظمتِ انسانی کی مظہر ہے اور اسی کی آج وطنِ عزیز کو ضرورت ہے دیگر تمام سوچیں جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے والی ہیں۔



.
تازہ ترین