• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈان لیکس کے حوالے سے قائم کردہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لائے بغیر پرائم منسٹر آفس نے کارروائی کرتے ہوئے جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے ، اسے پاک فوج نے مسترد کر دیا ہے ۔ اس سے نہ صرف حکومت کیلئے بحران زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے بلکہ ملک میں سیاسی بے چینی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے اپنا فوری ردعمل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ڈان لیکس انکوائری رپورٹ پر حکومتی نوٹیفکیشن انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے ۔ اس لئے نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے ۔ ‘‘ اس ردعمل سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انکوائری کمیٹی یا بورڈ کی سفارشات کچھ اور تھیں اور حکومت نے ان پر کارروائی کچھ اور کی ۔ پاک فوج کی طرف سے پرائم منسٹر آفس کے نوٹیفکیشن کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کرنے سے تاثر یہ ملتاہے کہ حکومت نے کسی کو بچانے کیلئے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے ، جس پر پاک فوج مطمئن نہیں ہے ۔ یہ بات حکومت کیلئے انتہائی تشویش ناک ہونی چاہئے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے ٹوئٹس جمہوریت اور اداروں کیلئے زہر قاتل ہیں ۔ ٹوئٹس سے نظام نہیں چل سکتا ۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ پرائم منسٹر آفس نوٹیفکیشن جاری نہیں کر سکتا ۔ اگرچہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے اس فوری ردعمل میں ثالثی کی کوشش کی ہے مگر معاملہ بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اس نئے بحران سے حکومت اگر بچ نکلتی ہے تو پاناما کیس کے فیصلے کے بعد اس کے خلاف ایک تحریک چلنے کے حالات پہلے ہی بنے ہوئے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد کرکے وزیر اعظم کو ہٹانے کیلئے تحریک کا بھرپور انداز میں آغازکر دیا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی میاں محمد نواز شریف اور عمران خان دونوں کے خلاف پہلے ہی اپنی تحریک شروع کر چکی ہے ۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی اتحادی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں کس طرح کی کوئی سیاسی تحریک بنتی ہے ، اس کا رخ کیا ہو گا ، تحریک کا ہر اول دستہ کون سی قوت ہو گی ، اس تحریک کا فائدہ کس کو ہو گا اور ملک پر اس تحریک کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وکلابرادری نے بھی پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم پر استعفیٰ کیلئے دباؤ بڑھانے کی غرض سے آگے آنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ موجودہ حالات میں یہ ایک نیا فیکٹر ہے ، جو تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی الگ الگ طے کر دہ حکمت عملیوں کو متاثر کر سکتا ہے اور ملک میں اپنے طور پر سیاسی تحریک کا رخ متعین کر سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید رضوی نے اس سلسلے میں پہل کی اور انھوں نے judgment کی روشنی میں فوری طور پر وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ کیا اور 2 مئی کو اجلاس طلب کر لیا۔وہ پرانے activist ہیں اور طلبا ء اور وکلا ء تحریک کا تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان بار کونسل، جو پہلے ہی استعفی طلب کر چکی ہے، نے لا ئحہ عمل بنانے کےلئے5 مئی کو پورے ملک کی بار ایسو سی ایشن اور وکلاء بارز کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم کو الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر مستعفی ہو جائیں ، ورنہ انہیں ملک بھر کے وکلاء کی احتجاجی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم کو جو مدت دی تھی ، وہ ختم ہو گئی ہے ۔ لہٰذا بار ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک چلانے کیلئے 13 مئی کو ملک بھر کے وکلا کا کنونشن بلا لیا ہے ۔ بار ایسوسی ایشن کے صدرنے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ملک بھر کے تمام وکلااس ایک نکتہ پر متحد ہیں کہ وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا چاہئے ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موقف کی حمایت کر دی ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ 2007ء کی عدلیہ کی آزادی کی تحریک نے پاکستان کو ایک نئی ڈگر پر ڈالا ہے۔ وکلاء برادری کی یہ نئی تحریک پاکستانی معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے کچھ نئے معیارات کا تعین کرے گی ، جن سے انحراف کرنا اس طرح مشکل ہو گا ، جس طرح عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے نظام انصاف میں متعین کردہ معیارات سے انحراف کرنا مشکل ہے ۔ اب بھی یوں محسوس ہو رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو وکلا برادری کے پیچھے چلنا پڑے گا اور ملک میں جو تحریک بننے جا رہی ہے ، اس کا سیاسی جماعتیں اپنی مرضی سے رخ متعین نہیں کر سکیں گی ۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی تحریک کا تعلق ہے ، اس کے مقاصد بھی تقریباً وہی ہیں ، جو وکلاء برادری کے ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے اپنے سیاسی مقاصد بھی ہیں ۔ عمران خان بہت پہلے سے سیاست میں کرپشن کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس وقت پاکستان میں عمران خان سب سے بڑے عوامی اجتماعات کرنے والے لیڈر ہیں ۔ لوگ ان کے جلسوں میں جاتے ہیں اور عمران خان عوامی طاقت سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ یہ امکان موجود ہے کہ وکلابرادری اور عمران خان کرپشن کے خلاف تحریک میں ساتھ ساتھ چلیں ۔ عمران خان اس تحریک کو سب سے زیادہ قوت فراہم کر سکتے ہیں لیکن انہیں بھی تحریک کے اسی رخ پر چلنا ہو گا جس کا تعین وکلا برادری کرے گی ۔
پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ عمران خان سے پہلے ہی تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہے لیکن یہ تحریک صرف سندھ تک محدود ہے ۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری نے ’’ گو نواز گو ‘‘ کے نعرے کے ساتھ ’’ گو عمران گو ‘‘ کا نعرہ بھی لگا دیا ہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف وزیر اعظم کے خلاف مل کر تحریک نہیں چلائیں گی ۔ وکلاکی تحریک انہیں اپنے اس لائحہ عمل پر نظرثانی کیلئے مجبور کر سکتی ہے ۔ کسی بھی تحریک کے اہم مراکز بڑے شہر ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں بڑے شہر ہمیشہ حکومتوں کو ہٹانے اور دیہی علاقے حکومتیں بنانے میں استعمال ہوتے ہیں ۔
موجودہ پیپلز پارٹی دیہی علاقوں میں زیادہ موثر ہے ۔ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ہی پیپلز پارٹی شہروں میں موثر رہی ہے ۔ اس وقت بڑے شہروں میں پیپلز پارٹی کوئی موثر تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ شہروں میں اس کے پاس نمایاں سرگرم کارکن نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی نے جب بھی کسی بڑے شہر میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا تو وہاں لوگوں کو دیہی علاقوں سے لایا گیا ۔ لہٰذا منطقی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی سیاسی تحریک بنتی ہے تو اس کا رخ متعین کرنے میں پیپلز پارٹی کا کردار انتہائی کم ہو گا ۔ وکلابرادری اور تحریک انصاف ڈرائیونگ سیٹ پر ہوں گی ۔دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اس طرح کی کسی تحریک کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔
پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی وجہ سے پاکستان اس خطے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اہم ملک بن گیا ہے لیکن یہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی ہے ۔ اس لئےکئی خطرات موجود ہیں ۔ مستقبل میں سیاست کو کرپشن سے پاک کرنے کا نعرہ زیادہ مقبول رہے گا ۔
عمران خان اس نعرے کی وجہ سے مقبول سیاسی رہنما ہیں لیکن وہ خود بھی سیاست دان ہیں ۔ ان کے خلاف بھی ایک ریفرنس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ قائم ہو گیا ہے اور وہ بدھ تین مئی سے سماعت شروع کرے گا ۔ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ یہ بنتا نظر آ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کیلئے دفاعی پوزیشن پر ہو گی ۔ تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنی موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھنے کیلئے کوششوں میں مصروف رہے گی ۔ ملک کی مذہبی جماعتیں اپنی عوامی حمایت میں اضافہ کر سکتی ہیں ۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس اہم مرحلے پر داخلی اور خارجی معاملات میں سیاستدانوں کی گرفت مزید کمزور ہو گی اور یہ بات سب سے زیادہ تشویش ناک ہے ۔



.
تازہ ترین