• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2006ء میں حیدرآباد دکن کے ایک پریس کلب میں میٹ دی پریس سے بات کررہا تھا تو میں نے کہا کہ پاکستان خطرات سے دوچار ہے تو وہاں کے سرکردہ صحافیوں میں جن میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی، پوچھا کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی آپ اپنے آپ کو محفوظ نہ کر پائے، یہ طنز بھی تھا، افسوس کا اظہار بھی مگر میں نے تحمل سے جواب دیا کہ اگر بھارت جیسا پڑوسی ہمارے خلاف سرگرم عمل ہو تو پھر خطرات بڑھتے چلے جاتے ہیں، وہ ہمیں قبول نہیں کرتا اور ہم اسکی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتے، سو مشکلات بڑھتی ہی چلے جارہی ہیں، اس واقعہ کو گیارہ سال بیت گئے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ہے، جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، بھارت اشوکا کے زمانے سے مہابھارت بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے، اپنی بحری قوت بڑھا رہا ہے، ایٹمی قوت میں بھی اضافہ کررہا ہے، اگرچہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جب دونوں ممالک ایٹمی طاقت بن گئے تھے اور ایک دوسرے کو زیر نہیں کرسکتے تھے تو پھر مل جل کر مسائل کا حل تلاش کرنے کی سعی کرتے یا ایٹمی خطرہ سے بچائو کی راہ تلاش کرتے، اُسکے بارے میں معاہدے کرنا چاہئے تھے مگر بھارت کو چین نہ آیا اور اس نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن بنا ڈالا کہ پاکستان پر اِس سرعت اور طاقت کے ساتھ آٹھ جگہوں پر حملہ کیا جائے کہ اُسے ایٹم بم استعمال کرنے کی مہلت نہ ملے۔ ہمارے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم تیار حالت میں نہیں ہے بلکہ اُس کو حملے کیلئے تیار کرنے کیلئے وقت درکار ہوگا، وہ چند گھنٹے بھی ہوسکتے ہیں اور چند دن بھی، مگر یہ غلط ہے ہمارے ایٹم بم تیار ہیں جن سے 80سیکنڈ میں حملہ کیا جاسکتا ہے مگر پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اس لئے اس نے ایٹمی جنگ سے بچائو کیلئے دوسرا راستہ اختیار کیا کہ محدود پیمانے پر تباہی پھیلانے والے 60سے 160کلومیٹر تک ہدف پر صحیح صحیح نشانہ بنانے والے ایٹمی میزائل تیار کرلئے۔بھارت کے سارے گیریژن پاکستان کی سرحد سے 160کلومیٹر کے دائرے میں ہیں، اس طرح پاکستان نے بھارت کےکولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو ناکام بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی، جس پر بھارت کے ایٹمی پروگرام کے ایک زمانے کے چیئرمین شیام سرن نے کہا تھا کہ اگرپاکستان نے محدود پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کئے تو ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی۔ اس پر ہمارا کہنا تھا کہ ہم کب ایٹمی جنگ چاہتے ہیں آپ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے تصور کو خیرباد کہہ دیں تو محدود پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار استعمال ہی نہیں ہونگے۔ محدود پیمانے کے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنیکی خوبی ہے کہ وہ زیادہ تباہی پھیلانے کے زمرے میں نہیں آتے، اسلئے بھارت کو یہ بات پسند نہیں آئی، اس خیال سے کہ بھارت باز نہیں آئیگا تو پاکستان نے یہ اصول وضع کیا کہ ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس نے دفاعی نظام، سائبر جنگ، ایک میزائل سے کئی سمت پر مار کرنے کی صلاحیت وغیرہ وغیرہ۔ بھارت اپنے جارحانہ پروگرام 1985ءمیں بنا چکا تھا کہ وہ بحری قوت حاصل کرکے خطے کی طاقت بننا چاہتا تھا، اسلئے اس نے روس سے طیارہ بردار جہاز حاصل کیا اور پھر ایٹمی ایندھن سے چلنے والی آبدوز اری ہانت تیار کرلی، جس سے وہ 700کلومیٹر تک زمین پر ایٹمی حملہ کرسکتا ہے، جسے دوسرے ایٹمی حملے کی صلاحیت کہا جاتا ہے اور اُسکے حصول کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب جنگ کی گنجائش نہیں کیونکہ جنگ کی صورت میں دونوں ملکوں میں کوئی ذی روح باقی نہیں بچے گا اور نہ درخت، نہ چرند و پرند، مجبوراً پاکستان نے بھی دوسرے ایٹمی حملے کی صلاحیت کا اظہار کرکے بھارت کے ہم پلہ ہوگیا۔ بھارت روس سے S-400دفاعی نظام خرید رہا ہے کہ اس طرح اسکے ملک میں کوئی میزائل یا کوئی اور چیز داخل نہیں ہوسکتی، پاکستان نے جواباً چین سے کچھ اسی قسم کا نظام خرید لیا ہے، بھارت کو اسرائیل اور امریکہ یہ یقین دلا چکے ہیں کہ وہ بھارت کے دفاع کو مضبوط کریں گے اور پاکستان کے جدید ہتھیار بھارت پر کارگر نہیں ہوسکیں گے مگر یہ سوچ غلط ہے، پاکستان روایتی جنگ سے لیکر سائبر جنگ یا آلات نصب کرنے والے نظام کا توڑ حاصل کر چکا ہے، مگر یہ جدید دور ہے اِس میں جنگ کے کئی نئے نئے انداز اور اس میں جدید سے جدید ہتھیار استعمال ہوسکتے ہیں، اسلئے بہتر تو یہ ہے کہ دونوں ممالک مل جل کر رہیں اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی سبیل کریں نہ کہ اسلحہ کی دوڑ میں پھنسیں بلکہ خطے کے مفاد میں مل کر کام کریں۔ پاکستان سی پیک بنانے میں مصروف ہے جس سے پاکستان کی اہمیت اور پاکستان کی اقتصادیات کو دس چاند لگ جائینگے جو بھارت کو قبول نہیں، اُس کو سبوتاژ کرنے کیلئے بھی بھارت ہر حربہ استعمال کررہا ہے، وہ پاکستان میں دہشت گردی کرارہا ہے، بھارتی بحریہ کا کمانڈر کلبھوشن یادیو نے بحری راستوں کو غیرمحفوظ بنانے کیلئے تخریب کاری کرنا تھی، اس کے علاوہ کراچی اور کوئٹہ میں اس نے ہزارہ برادری کا بے دریغ خون بہایا، پھر بھارت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو استعمال کیا اور پاکستان کے اندر ملالہ یوسف زئی سے لیکر بہت سے اسکولوں پر حملہ کرکے اور خون بہا کر انسانیت سوز حرکتیں کیں، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی خود سے پاکستانی حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد جو انکشافات کئے وہ ہوشربا ہیں۔ تاہم پاکستان کے عوام پہلے سے یہ بات جانتے تھے کہ اسکے پیچھے بھارت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اِس قسم کی پراکسی وار کو جاری رکھنا کہاں کی انسانیت ہے اور یہ کہ کس قدر خطے اور دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ ہمارے خیال میں یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے جو چیز دونوں ممالک کے مفاد میں ہے وہ ہے امن، جس کی کوشش کی جانی چاہئے، اس طرح سے کہ پاکستان بھارت برابر کی بنیاد پر تعلقات قائم کریں مگر پاکستان بھارت کی بالادستی تسلیم نہیں کریگا۔ اب اِس سلسلے میں بات یہاں تک پہنچتی نظر آرہی ہے کہ شاید پاکستان کے کچھ حلقے بھارت سے بلاکسی شرط کے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں جبکہ قوم بھارت کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، اس پر بھی عقلمندی، تدبر، سفارت کاری کا نئے طریقہ کار وضع کرکےکوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے مگر پاکستانی قوم بھارت کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگی، البتہ امن کی خواہاں ہے اور وہ اپنی عزت و توقیر پر بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوگی۔



.
تازہ ترین