• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جشن مرگ کسے کہتے ہیں؟ رقص بسمل کیا ہوتا ہے؟ کچھ لوگ پن نکلے ہینڈ گرنیڈکو کھلونا سمجھ کر اس سے کھیلنے کیوں لگتے ہیں؟صف ماتم کو ڈانسنگ فلور سمجھ لینا کہاں کی سیاست اور دانش مندی؟ مٹھائیاں کھاتے کھلاتے وقت خیال کیوں نہیں آتا کہ یہ زہریلی بھی ہو سکتی ہیں۔ پاناما کا جشن جندال اور جاتی عمرے کا تعلق دو ٹُٹے بھجے وزیر فٹ بال اسٹیڈیم جاتے ہیں تو پورا اسٹیڈیم ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے گونجنے لگتا ہے اور اس سے چند روز پہلے یہی حادثہ ایک وفاقی وزیر کو بھی پیش آتا ہے۔گندم کی بیشتر کٹائی ہو چکنے کے بعد وزیراعظم گندم کی کٹائی کا افتتاح کرتا ہے۔ کسان بھوک کاٹ رہے، وزیراعظم سونے کی درانتی سے گندم کاٹتا ہے۔کینسر کے خلاف جنگ لڑتی ہوئی فنکارہ نائلہ جعفری اپنے علاج کیلئے حکومتی امداد کو ٹھکراتے ہوئے کہتی ہے کہ وزیراعظم اس جندال سے کیوں ملے جس کے چنڈال دوست نریندر مودی کے ہاتھ معصوم کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ صرف ہاتھ نہیں پورے کا پورا خون رنگا ہوا ہے۔کراچی جیل سے ایک عورت فرار ہوتے ہوئے پکڑے جانے پر یہ دہلا دینے والا بیان دیتی ہے کہ اس کی ضمانت ہو چکی لیکن اس کے پاس زر ضمانت مبلغ پانچ ہزار روپیہ کا بندوبست نہیں جسے ادا کر کے وہ رہائی حاصل کر سکے اور میں سوچ رہا ہوں کہاں ’’پاناما‘‘ کے اربوں کھربوں روپے اور کہاں 5ہزار کا نہ ہونا۔ ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ایک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نام کا ہوتا تھا جسے حالیہ وزیراعظم نے زیر مقدمہ ہونے کی وجہ سے وزارت عظمیٰ چھوڑ جانے کا ملین ڈالر مشورہ بالکل مفت پیش کیا تھا، آج وہ خود اس سے کہیں زیادہ سنگین مقدمہ میں ملوث ہے، تفصیلی فیصلہ پڑھ کر حواس گم ہو جاتے ہیں لیکن وہ اڑیل انداز میں پوچھتا ہے۔۔ ’’استعفیٰ کیوں دوں؟‘‘ اللہ پاک دشمن کو بھی سو جوتے سو پیاز والی سچوئشن سے محفوظ رکھے۔ خدا اور وصال صنم میں سے ایک کا انتخاب مشکل ہیں لیکن جہاں وحشت، دہشت، سراسیمگی، ہٹ دھرمی کا دور دورہ ہو وہاں یہی کچھ ہوتا ہے، چیونٹیوں کے پر نکل آتے ہیں، گیدڑ رستہ بھول کر شہر کا رخ کرتے ہیں۔عمران ایک نہیں، ایک سے زیادہ گاڈ فادرز سے نبرد آزما ہے۔ محاورتاً نہیں حقیقتاً چومکھی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کا ان کے ساتھ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی چھوٹے سے جوہڑ میں کوہ ہمالیہ گرا دے یا فارمی بھیڑوں کے باڑے میں کوئی شیر گھس آئے یا جیسے خواب خرگوش میں گم خراٹے مارتے کسی شخص کو 440وولٹ کے جھٹکے ملنے لگیں یا جیسے محلے کا کوئی دلیر بچہ بنٹے کھیلتے کھیلتے علاقے کے کسی بداعمال چوہدری کو سب سے بڑے چوک میں الف ایکسپوز کرنے کے ساتھ ہی باقی شہر کے تمام معزز کن ٹٹوں کے گندے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر ان کی جھوٹی عزتیں سرعام اچھال کر ان کا جعلی دبدبہ اپنے پیروں تلے روند دے۔ وہ انہیں انصاف اور میرٹ کے میدانوں میں گھسیٹتا پھر رہا ہے اور یہ چیختے پھر رہے ہیں کہ یہ کیسی سیاست ہے؟ جبکہ وہ تو سرے سے سیاست کر ہی نہیں رہا، وہ تو صفائی اور صفایا کرنے کے کارخیر میں مصروف ہے ورنہ سیاست کا خبیث خلاصہ تو صرف اتنا ہے کہ ’’ونڈ کھائو تے کھنڈ کھائو‘‘’’گاڈ فاردرز‘‘ نے پورا ملک نسل در نسل آپس میں ایسے بانٹ رکھا ہے جیسے منی گاڈ فادرز یا یوں کہہ لیجئے جیب کتروں نے علاقے بانٹ رکھے ہوتے ہیں اور تو اور گداگروں کی بھی اپنی اپنی ’’بیٹس‘‘ ہوتی ہیں۔ ان سب میں ہلکی پھلکی جھڑپیں چلتی رہتی ہیں لیکن اصل میں اور اندر سے ایک ہوتے ہیں۔اچھا خاصا رنگ جما ہوا تھا، عمران نے آ کر رنگ میں بھنگ کر دیا، ایک آدھ نہیں 20کروڑ کبابوں میں ہڈی اور ہر سانپ کے منہ میں کوڑھ کرلی ٹھونس دی ہے۔اوپر سے ایک اور بدشگونی کہ چتر چالاکیوں کے عادی نونی ایک اور کٹا کھول بیٹھے اور اب سر پکڑ کے بیٹھے ہیں اور ماتم اس بات کا کہ ’’باسی‘‘ کے حکمنامہ پر "REJECTED"کی مہر ماتحت نے کیسے لگا دی تو بات بہت سادہ ہے۔ اصل ’’باس‘‘ ہے ملکی سلامتی اور اصول یہ ہے شریفانہ زندگی کا کہ باپ بیٹے کے درمیان بھی جو کچھ طے ہو جائے، اس کی پابندی لازمی ہوتی ہے جس سے سرمو انحراف ممکن نہیں لیکن یہ تو ’’کہا کچھ اور کیا کچھ‘‘ کے عادی ہیں۔ سجی دکھا کر کھبی مارنا ان کی سرشت میں شامل ہے۔۔۔پاناما لیکس سے ڈان لیکس تک سب کچھ لیکو لیک ہے اور انہی رویوں کی وجہ سے ملک کا ’’اقتصادی برتن‘‘ بھی نیچے یعنی پیندے سے لیک کر رہا ہے اور جس برتن کا پیندا ہی نہ ہو اسے سو کیا ہزار ’’سی پیک‘‘ بھی نہیں بھر سکتے کہ بھیڑیئے سینے کے لئے نہیں، ادھیڑنے کے لئے آتے ہیں۔اب تھوکا چاٹنا اور مونچھوں کو الٹا تائو دینا ہو گا۔ عمران کا ’’الٹنا پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا‘‘ ہی کم تھا جو پھر ہاتھ دکھانے سے باز نہ آئے۔ سیانے سچ کہتے تھے کہ رب نیچے آ کر ڈانگ نہیں مارتا۔۔۔ مت مار دیتا ہے۔ اب یو ٹرن لو حالانکہ ٹرم پھر بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔

.
تازہ ترین