• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی موسم کا کچھ پتا نہیں، کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہر طرف گرما گرمی ہے۔ گرمی کے اس موسم میں اسلام آباد اور پنڈی میں بھی گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ پچھلے چار سالوں میں پہلی مرتبہ وزرا تقاریب میں جانےسے ڈرنے لگے ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد کے گرائونڈ گواہ ہیں جہاں وزرا کی موجودگی میں ’’جانے‘‘  کے نعرے لگ گئے۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال اسمبلیوں میں ہے۔ چوکوںاور چوراہوں میں بھی حالات ایسے ہی ہیں۔ سیاست جلسوں سے بھری پڑی ہے۔اگرچہ میاں نوازشریف نے اوکاڑہ میں جلسہ کیا ہے مگر یہ جلسہ عمران خان کے جلسے سے کہیں چھوٹا تھا۔ اس جلسے میں کرکٹ اور خواتین سے متعلق باتیں ہوئیں۔ کرکٹ سے یاد آیا کہ میاں نوازشریف نے 1973میں ریلوے کی طرف سے پی آئی اے کے خلاف میچ کھیلا تھا۔ ریلوے کی ٹیم میں وہ پیپلزپارٹی کے رہنما نویدچوہدری کے انکل کی سفارش پرشامل کئےگئے تھے۔ اوکاڑہ میں میاں صاحب نےجو کچھ خواتین کے بارے میں کہا،وہ نہ کہتے تو بہتر تھا۔ میاں نواز شریف کی ان باتوں کا جواب ایک رو ز بعدعمران خان نےکراچی میں بیگم کلثوم نواز کو خراج تحسین پیش کرکے بڑے احسن انداز میں دے دیا۔ زرداری صاحب لگتا ہے خیبرپختونخوا میں دو کامیاب جلسے کرکے تھک گئے ہیں۔ ان جلسوں کا کریڈٹ فیصل کریم کنڈی کو جاتا ہے۔
ہر طرف استعفے اور کرپشن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو اخلاقیات کا درس دیا جارہا ہے۔ ابھی پاناما پر بحث ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک نوٹیفکیشن نے نئی بحث شروع کرا دی ہے۔ اس نوٹیفکیشن کو افواجِ پاکستان کی طرف سے پہلی فرصت میں رد کردیا گیا۔ چکری کے چوہدری کو اس پر الگ غصہ آیا۔ ٹویٹ پر بھی باتیں ہوئیں۔ چکر تو ہفتے کی سہ پہر ہی چڑھ گئے تھے۔ ہفتے اور اتوارکی درمیانی رات چکروں کو سمجھنے میں گزر گئی۔ پھر اتوار کو جاتی امرا کے عالی شان محلات میں قیامت کے ڈھائی گھنٹے گزرے۔معاملے کی سنگینی بہت زیادہ ہے۔ پتا نہیں دوپرانے دوست میاں صاحب کی طرف سے پنڈی والوں کے ساتھ کون سا تازہ وعدہ کرتے ہیں۔ ویسے وعدوں کی پاسداری کو حقیقت کے آئینے میں دیکھاجائے تو کسی نئے وعدے کا معاہدہ مشکل ہے کیونکہ ہفتے کی شام جب ایک سیاسی شخصیت نے ایک حاضر سروس ہستی کو فون کیا تو ہستی خاصے جلال میں تھی۔ اسی جلالی کیفیت میں انہوں نے آئندہ فون نہ کرنے کا کہہ کرکے فون بندکردیا۔
ایک اور معاملے کی سنگینی پر ابھی زیادہ باتیں سامنے نہیں آئیں مگر بستر مرگ پر پڑی ہوئی اداکارہ نائلہ جعفری نے پوری قوم کو یہ کہہ کر جگانے کی کوشش کی ہے کہ..... ’میں کینسر سے مر جائوں گی مگر وطن دشمنوں سے دوستی کرنے والوں کی امداد نہیں لوں گی.....‘‘ کینسر میں مبتلا اداکارہ نائلہ جعفری نے وفاقی حکومت سے کسی بھی قسم کی امداد لینے سے انکارکر دیا ہے۔ محترمہ نائلہ جعفری کو سجن جندال سے حکمرانوں کی خفیہ ملاقاتوں پر اعتراض ہے۔اس ادا سے اداکارہ نے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش چراغِ آخر شب کے مترادف ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے جذبات نائلہ جعفری سے مختلف نہیں ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کسی روز اپنے مسلم لیگی دوستوں سے پوچھوں کہ یہ سچ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے بنا اور کیا یہ سچ نہیں کہ اب مسلم لیگ ہی ہندوستان سےزیادہ دوستیاں کر رہی ہے۔ ہندوستان کو خوش کرنے کا کوئی موقع مسلم لیگ ضائع نہیں کرتی۔
کرپشن کی باتوں پر مجھے کوریا کی سابق صدر یاد آ جاتی ہے۔ ایک کرپشن کیس میں سپریم کورٹ نے اپنی صدر کو جب نااہل قرار دینے کافیصلہ سنایا تو یہ فیصلہ پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ کورین سپریم کورٹ کے جج کہتے ہیں کہ..... ’’ہم آپ کو نااہل قرار دے کر عہدۂ صدارت سے ہٹارہے ہیں کیونکہ آپ نےملکی اداروں کو کمزور کرنے اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے کام کئے ہیں.....‘‘ کورین صدر نے سر جھکا کرفیصلہ قبول کیا اور خاموشی سے گھر چلی گئی۔ کوریا میں دلچسپ بات یہ تھی کہ جب صدر کے خلاف کرپشن کیس شروع ہوا تو حکومتی پارٹی کے وزرا اورممبران اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ صدر کی وجہ سےہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں اور ملک کا نام بدنام ہواہے، اس لئے صدر کو سخت ترین سزا دی جائے۔ کچھ نے توصرف یہ مطالبہ کیا اور بہت سے وہ تھے جو یہ کر پارٹی چھوڑ گئے کہ .... ’’جس پارٹی میں صدر پر کرپشن کا مقدمہ ہو ایسی پارٹی میں رہنا ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہے.....‘‘
جہاں تک ادارے کمزور کرنے کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں کی جمہوری قیادتوں نے اداروں کو بہت کمزور کیا۔ ا س سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعدد مرتبہ توجہ دلائی ہے۔
او جی ڈی سی ایل کی طرح سی ڈی اے، پی آئی اے، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن سمیت کئی ادارے ایسے ہیں جہاں سپریم کورٹ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر کام چلایا جارہا ہے۔ کرپشن کے اس بہتے دریا میں انصاف اور ایمانداری کی بستیاں تباہ ہوتی جارہی ہیں۔ پچھلے تیس پینتیس سالوں سے بعض سیاستدان کرپشن کی داستانیں رقم کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اگلے الیکشن کا سوچنا چاہئے۔ اور تو اور مولانا فضل الرحمٰن فرماتے ہیں کہ ..... ’’ایک دوسرے کو چور کہنےکے بجائے عوام کے سامنےاپنا اپنا منشور رکھا جائے.....‘‘ پاکستان کے کرپٹ سیاستدان ایک دوسرے کو بچانےکے چکر میں لگے ہوئے ہیں اس سار ےچکر میں قوم چکرا گئی ہے۔ مجھے تواس مرحلے پر کرامت بخاری کے اشعار یادآرہے ہیں کہ؎
سرابوں کا سہارا مل گیا ہے
خسارے میں خسارا مل گیا ہے
کہیں کھویا نہیں غم کا خزانہ
مجھے سارا کا سارا مل گیا ہے

.
تازہ ترین