• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ سچی کہانی کچھ یوں ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں میری میلن ایک مہاجر عورت نیویارک کے شہر میں کھانا پکانے کا کام کرتی تھی، یعنی کک تھی۔ اس عورت نے امریکہ، آئس لینڈ اور کئی شہروں میں بے شمار افراد کو ٹائیفائیڈ لگا دیاجبکہ وہ خود بظاہر بالکل تندرست تھی۔ اس کو ایک مرتبہ ایک سال تک ایک جزیرے میں بھی رکھاگیا۔ محکمہ صحت کے ملازمین نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ فرار ہوگئی حتیٰ کہ اس کے مالک نے اس پر شک کیا کہ وہ بیمار ہے اور لوگوں کو ٹائیفائیڈ میں مبتلا کررہی ہے تو اس نے انہیں دھمکیاں دیں اور چلی گئی۔ وہ دو مرتبہ فرار ہوئی بلکہ جب محکمہ صحت کے لوگوں نے اسے قید میں رکھا تو اس نے اپنی رہائی کے لئے کورٹ میں اپیل کردی۔رہائی کے بعد اس کو دوبارہ جنوبی آئس لینڈ بھیج دیا گیا۔
سو سے زائد افراد کو ٹائیفائیڈ میں مبتلا کرنے کے بعد لوگوں نے اس کا نام ٹائیفائیڈ میری رکھ دیا تھا۔ یہ نام مرتے دم تک اس کے ساتھ جڑا رہا۔ دلچسپ صورت حال یہ تھی کہ وہ جہاں پر کام کرتی وہاں پر ٹائیفائیڈ کی وبا پھوٹ پڑتی اور پھر وہ وہاں سے کہیں اور چلی جاتی۔
یہ سچی کہانی ہمیں کچھ یوں یاد آئی کہ ہمارے ملک میں بے شمار ایسے ہی افراد ہیں جو کہ کھانے پینے کے شعبے سے وابستہ ہیں اور لوگوں کو بیمار کرتے چلے جا رہے ہیں مگر یہ پوشیدہ اور چھپے ہوئے ہیں۔ ٹائیفائیڈ میری سے1906ء میں چارلس ہنری وارن جو کہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ آئس لینڈ میں تعطیلات گزار رہا تھا اس کے خاندان کے گیارہ افراد میں سے چھ افراد کو ٹائیفائیڈ میں مبتلا کردیا، چارلس سخت پریشان ہوا۔ اس نے وجہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ٹائیفائیڈ عموماً پانی، گندےسلاد اور ایسے کک جو اس بیماری میں مبتلا ہوں اور واش روم کے بعد ہاتھوں کو پوری طرح صاف نہ کریں وہ لوگوں کو اس بیماری میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ وارن نے جارج سپرنامی ایک سول انجینئر کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے پورے گھر کا جائزہ لیا اور چارلس کو بتایا کہ تمہارے گھرانے کو ٹائیفائیڈ میں مبتلاکرنے کی وجہ تمہاری کک ہے جو کچن میں کام کرتی ہے۔ چنانچہ اس نے میری کی ہسٹری پتہ کرائی تو پتہ چلا کہ وہ ہر جگہ لوگوں کو ٹائیفائیڈ میں مبتلا کرکے وہاں سے ملازمت چھو ڑ کر بھاگ جاتی ہے اس کو پکڑا گیا اور نیویارک کے ایک جزیرے میں ایک سال رکھا۔ اس دوران اس کے بے شمار ٹیسٹ کئے گئے اس کے 120ٹیسٹ ہوئے جس میں بیکٹریا کے حوالے سے یہ مثبت آئے۔ آخر اس کو تین سال کے لئے قید کردیا گیا اس دوران اس نے اپنی رہائی کے لئے مقدمہ لڑا۔ ہیلتھ کمشنر نے کہا کہ وہ رہا ہو سکتی ہے مگر وہ اپنا پروفیشن تبدیل کرلے اور وہ اسے لانڈری میں جاب دے سکتا ہے مگر وہ غائب ہوگئی۔ مگر کچھ عرصہ بعد محکمہ صحت کے ملازمین نے اسے گرفتار کرلیا اور اس کو دوبارہ جنوبی آئس لینڈ بھیج دیا گیا۔ جہاں پھر وہ مرتے دم تک رہی۔
یہ سچی کہانی ہم نے اس لئے بیان کی کہ آج حکومت ہر جگہ اسپتال اور صحت کی سہولتوں کو بڑھانے پر زور دے رہی ہے۔ مگر کوئی بھی اصل وجہ کی طرف نہیں جا رہا۔ ہمارے ہاں بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ پینے کے لئے صاف پانی کا نہ ہونا حتیٰ کہ اس وقت جتنی کمپنیاں بھی پانی سپلائی کر رہی ہیں ان میں سے آدھی سے زیادہ کمپنیوں کے بارے میں اخبارات میں رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں کہ پانی پینے کے قابل نہیں۔ لوگ ہاتھ نہیں دھوتے جو بیماریاں پھیلانے کی اصل وجہ ہے۔ اگلی دفعہ ہم آپ کو Broad street chalera pump کی اسٹوری سنائیں گے کہ ایک ہینڈ پمپ نے سینکڑوں افراد کو ہیضے میں مبتلا کردیا تھا۔
ہمارے ہاں دوسری وجہ کھانے پینے کی انتہائی ناقص اشیا، خالص دود ھ کا نہ ملنا، فوڈ کلرز کا استعمال نہ کرنا، گندے پانی کی سبزیوں کا استعمال، فاسٹ فوڈز، مشروبات کا استعمال بڑھ گیاہے۔ فوڈ اتھارٹی مانا کہ بہت کام کر رہی ہے مگر کبھی اس اتھارٹی نے دیکھا کہ یہ سرکاری اسکول کے باہر جو اشیا فروخت ہو رہی ہیں اگر حکمرانوں کے بچے وہ کھا لیں تو کئی دن اسپتالوں میں پڑے رہیں۔ حکمرانوں کی اکثریت مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہے مگر پھربھی وہ اس ملک کے غریب لوگوں کے لئے کچھ نہیں کرتے۔
ان کی جسمانی بیماریاں دعائوں سے دور ہو سکتی ہیں مگر کون سوچتا ہے؟ کمانے اور کرپشن کرتے کرتے آخر قبر تک پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ ا سکولوں، کالجوں کی کینٹینوں، ہاسٹلوں میں کھانا پکانے والوں کی اپنی صحت کی کیا صورت حال ہے؟ ہر جگہ ایک ٹائیفائڈمیری (Typhoid Mary) ہے اور ہر محکمے میں کرپشن کی بھی ایک ٹائیفائڈ میری ہے جو پورے معاشرے اور سوسائٹی کو آلودہ کر رہی ہے مگر کسی نے آج تک ٹائیفائڈمیری کو پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔
آج کل پورا ملک ہائوسنگ سوسائٹیوں کے مافیا کی زد میں ہے، دو گز زمین میں جانے والا نامراد انسان ہزاروں ایکڑ اور کنال خریدنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ آج پاکستان کا کوئی شہر ہائوسنگ اسکیموں سے خالی نہیں۔ ہمارے موجودہ اور سابق بعض حکمران کس قدر صاف ستھری اور احتیاط والی غذا کھاتے ہیں مگر بیمار پھر بھی ہیں، کیونکہ غریب اور بھوکے عوام کی بددعائیں ساتھ ہیں۔ بھوک سے پانچ بچوں کو مار کر خود کو مارنے والے شخص پر صرف خادم پنجاب کا ایک بیان اور رپورٹ مانگنا قابل افسوس ہے۔
حالات یہ ہیں کہ اِس وقت ملتان میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر لگے ہوئے چونسہ آم کو کاٹ کر ہائوسنگ اسکیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ باغات کے باغات کاٹے جا رہے ہیں۔ دنیا کا بہترین آم ملتان کے علاقے میں ہوتا ہے۔ پورے ملک میں زرعی رقبے کو ختم کر کے پلاٹوں کی نذر کیا جا رہا ہے۔ ایک ریڈ انڈین نے کیا خوب کہا تھا۔
'Only When The Last Tree Has Been Cut Down. Only When The Last River Has Been Poisoned Only When The Last Fish Has Been Caught. Only Then Will You Find That Money Cannot Be Eaten.
جب آپ پورے ملک کو ہائوسنگ اسکیموں میں تبدیل کر دیں گے۔ تو کیا ان زمینوں سے حاصل ہونے والے نوٹوں کو چبائیں گے۔ حکومت چاہےجتنے مرضی کسان پیکج دیتی رہے، اِس کا کوئی فائدہ نہیں ارے اللہ کے بندو ہائوسنگ اسکیموں پر پابندی لگائو۔ کبھی لاہور کے صرف ڈی ایچ اے کے پاس دو سو دیہات تھے، آج ان کا نام و نشان نہیں! صرف نام رہ گیا ہے۔ انہی زرعی علاقوں اور پہاڑی علاقوں میں ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن سے ادویات تیار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پانچ ہزار مختلف اقسام کی جڑی بوٹیوں سے ادویات تیار ہوتی ہیں، جن میں تین ہزار سے زیادہ یہ جڑی بوٹیاں فاٹا میں ہیں۔ آپ یہاں پر ڈرون حملے کر کے ان کو بھی تباہ کر رہے ہو۔ شاید حکومت وقت کو اندازہ نہیں کہ صرف دس سال بعد اِس ملک میں شدید غذائی قلت پیدا ہو جائے گی۔ اگلے سال آپ کو چونسہ آم نہیں ملے گا۔
اے بے عقلو! جب یہ سب زرعی رقبے ختم ہو جائیں گے تو کھائو گے کہاں سے؟ زرعی ملک پاکستان آج پھل، سبزیاں اور اجناس باہر کے ممالک سے منگواتا ہے۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں۔ اَب بھی وقت ہے کہ حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچے۔

.
تازہ ترین