• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر کوئی سویلین بالادستی کی بات کرتا ہے، جمہوریت اور ملکی اداروں کی مضبوطی کا راگ الاپا جاتا ہے، عام آدمی کی زندگی کو بدلنے کے دعوے کئےجاتےہیں اور وطن عزیز کو ’’ایشین ٹائیگر‘‘ بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا جاتا ہے، لیکن انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ باتیں اور دعوے صرف عوام کے ووٹوں سے مسند اقتدار سنبھالنے والے سیاستدان ہی نہیں بلکہ ملکی سرحدوں کے پاسبان اور شب خون مار کر تخت و تاج پرقبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر بھی کرتے ہیں، تاہم اقتدار ملتے ہی ان ’’مقتدرشخصیات‘‘ کی اپنی ذات کی تسکین کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور مقامی سے لے کر عالمی سطح کے فیصلے ازخود کرنے کی ’’علت‘‘ کا شکار ہوجاتے ہیں، یہی وہ موقع ہوتا ہے جب اپنی زندگیوں میں تبدیلیوں کے خواہش مند عوام اپنے خوابوں و ارمانوں کا خون اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھتے ہیں اور مایوسیوں کے گہرے سایوں میں دل کی تسلی اور بہتری کی امید میں نئے وعدوں کی بساط پر مہینوں، سال اور دہائیاں انتظار میں گزار دیتے ہیں، لیکن ان حالات کے ذمہ دار حکمرانوں کو بھی سبق آموز لمحوں اور ستم ظریف حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم صد افسوس کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور کرتوتوں سے کچھ نہیں سیکھتے اور پھر ’’حادثوں‘‘ کا شکار ہوجاتےہیں۔
معرض وجود میں آنے کے فوری بعد پاکستان جیسے غریب اور کمزور ملک میں دشمن ملک بھارت کے مقابلے میں مضبوط ملٹری کا تصور اجاگر ہوا، 1974میں بھارتی ایٹمی دھماکہ کے جواب میں ایٹمی طاقت بننا بھی اسی کا تسلسل تھا، طاقتور انٹیلی جنس اداروں کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی، ملکی سرحدوں کا دفاع تو مضبوط ہوگیا لیکن جنرل ایوب، یحییٰ خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف نے اسی طاقت کو اپنی اقتدار کی ہوس میں تبدیل کیا، اس دوران سویلین لیڈرشپ کی حقیقی پیدائش و افزائش کا سلسلہ ایسا رکا کہ ہر اقتدار میں آنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت لازم قرار پائی، اقتدار میں آنے کے بعد بھی ’’محتاجی اور بے بسیٔ‘‘ مقتدر سویلینز کا نصیب رہی ہے، ایک مرتبہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اقتدار شیئر کرتی ہے کبھی منتقل نہیں کرتی ہے، مشرف ایک دہائی تک بلاشرکت غیرے اقتدار میں رہنے اور تمام تر دعوئوں کے باوجود عوامی مفاد کا کوئی ایک بھی ایسا حقیقی کام نہ کرسکے جو ان کےخلاف ملک گیر احتجاجی مہم کو روکنے اور اقتدار سے بے دخلی کے سامنے بند باندھ سکتا،2008 کےانتخابات میں حکمرانی کا تاج سجانے کے بعد زرداری حکومت اپنی کارکردگی اور کوششوں سے بنیادی عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے طاقتور اداروں سے الجھتی وقت مکمل کرکے ’’ووٹ‘‘ سے عوامی انتقام کا نشانہ بن گئی،2013میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد نوازشریف سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر منظم ریاستی اداروں سے تنازع پیدا کرنے کے بجائے سویلین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر کریں گے، لیکن گزشتہ چار برسوں میں جس وعدے پر عوام سے ووٹ لے کر اقتدار میں آئے انہیں پوری طرح انجام دینے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں، بجلی کے جاری بحران پر آج بھی عوام پریشان ہیں، روزگار کی تلاش میں سارا دن سڑکیں ناپتے نوجوانوں کے سروں میں چاندی اتر چکی ہے، تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے بجٹ چار فی صد نہ کرکے عوام کو ’’بےشعور‘‘ رکھنے کی کامیاب حکمت عملی جاری ہے، صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے وعدہ وفا نہ کرکے عوام کو بیماریوں اور الجھنوں کا شکار رکھنے کی پالیسی جاری ہے، قرضوں سے معیشت کو دھکا لگانے کی روایت کو آپ نے ترک نہ کرکے ’’اصول پسندی‘‘ کا ثبوت دیا ہے، دہشت گردی و انتہاپسندی کےخلاف تمام تر مخالفت کے باوجود پہلے ’’مذاکراتی‘‘ راستہ اختیار کیا ناکامی پر سوچ اور جذبہ بدلے بغیر ’’لڑنے‘‘ کی تدبیر بھی مکمل امن کی راہ کو ہموار نہیں کرسکی، دہشت گردی و انتہاپسندی کےخلاف 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان شدومد سے بنایا لیکن اس پر پھر عمل بھی نہیں کیا، پارلیمنٹ میں مہینوں نہ آکر پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کا انوکھا فارمولا بھی آپ کی ہی ایجاد ہے، سیاسی اداروں کی ’’بیوروکریٹ ‘‘ کے ذریعے پامالی کا نایاب نسخہ بھی آپ کی ہی دریافت ہے، آپ کے جمہوری سلوک سے متاثر ہوکرحریف آپ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ’’طاقتوروں‘‘ کی جھولی میں جا بیٹھتے ہیں پھر انہی کے اشاروں پر ’’سیاست‘‘ اور ’’شارٹ کٹ‘‘ سےاقتدار کی منزل حاصل کرنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں، یہ آپ ہی ہیں جو عوامی و قومی مفاد کے فیصلے عوامی نمائندگی کے ایوانوں میں تو دور کی بات اپنی کابینہ میں بھی ڈسکس نہیں کرتے بلکہ کمال یہ ہےکہ آپ اس مرتبہ بھی دو چار قریبی وزراء کی کچن کابینہ سے باہر نہیں نکلے۔ یہ آپ ہی ہیں کہ جب مودی بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ گراتا ہے تو اسی ’’خونی‘‘ سے قومی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر اوفا میں تنہا ملتےہیں اور پھر ذاتی و فیملی تقریب میں بغیر پیشگی تیاری و حکمت عملی کے گھر بلا لیتےہیں، دہشت گردی و انتہاپسندی کےبدترین واقعات ہوں یا آپ کے گھر کی دہلیز پر سفاکی سےقتل ہونے والا آپ کا بیٹا مشال، آپ محض اظہار مذمت کرتے ہیں، بے بس لواحقین کےغم میں شریک ہونے کے لئے گھر سے قدم تک نہیں نکالتے، سچ تو یہ ہےکہ کسی کو آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ملکی قومی، داخلی اور عالمی امور پر آپ کی پالیسی یا حکمت عملی ہے کیا؟ آپ کی شرافت بجا، مقتدر و منظم ادارہ ہونے کے باوجود عسکری ادارہ کی بات سننا اور ان کی آراء لے کرقومی فورمز پر کھل کر بات کرنا آپ کی ذمہ داری ہےتاکہ انہیں اپنی بات کہنے کے لئے ’’مناسب فورم‘‘ تلاش نہ کرنا پڑے، دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے قومی اداروں سے الجھنا کمزوری نہیں تو کیا ہے، یہ ہی نہیں پاکستان میں دہشت گردی کا جال بچھانے والے را ایجنٹ کلبھوشن کی گرفتاری پر خاموشی اور جندال سے دن دہاڑے پرفضا مقام پر بطور وزیراعظم غیراعلانیہ ملنا کسی ایک ملکی ادارے ہی نہیں پوری قوم کے لئے باعث حیرت و پریشانی ہے، آپ کی بھارت سے دوستی و تجارت اور بجلی کے حصول کی خواہش بجا لیکن مظالم برسانے والے بھارت کے ساتھ پاکستان کی بطور ریاست کیا حکمت عملی ہو، پوری قوم اور فوج کو کیسے آن بورڈ لیا جائے یہ طے کرنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔40 برس سے جاری دہشت گردی کےخلاف جنگ کیسے جیتنا ہے اس کا حل یوٹرن لےکر راتوں رات نکالنے کی بجائے بیانیے کی تبدیلی اور نئی حکمت عملی بنانا بھی آپ کی ذمہ داری ہے، یہ بات کون سمجھے گا کہ ڈان لیکس معاملے پر انکار کےباوجود وزراٰء اور بیوروکریٹس کو ’’قربانی کا بکرا‘‘ بناکر ہٹائیں گے تو قوم سوچنے پر مجبور ہوگی کہ آپ تسلیم کرتےہیں کہ آخر کچھ تو غلط ہوا تھا؟ جمہوری ملک کی حیثیت سے اب وقت آگیا ہے کہ جناب وزیراعظم مزید وقت ضائع کئے بغیر تمام ملکی و غیرملکی معاملات پر پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں، مقتدرقومی اداروں اور پوری قوم کو اعتماد میں لیں، بھرپور اور کھل کر بحث ومباحثہ سےتمام پالیسیوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے حتمی شکل دیں تاکہ قوم سمجھ سکے کہ آپ کسی ایک لیکس سے بچنے کےلئے کسی دوسری لیکس کے بہانے ’’شہید‘‘ نہیں ہونا چاہتے بلکہ اپنے قول وفعل سے قوم کا حقیقی رہ نما ثابت کرسکتے ہیں کیونکہ اب عوام بھی بہت باشعور ہوچکے ہیں وہ سب جانتے اور سمجھتےہیں، آپ طاقت ور ہوں گے تو ملک و قوم اور ادارےبھی طاقتور ہوں گے۔

.
تازہ ترین