• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو دکھوں کی بیشمار قسمیں ہیں لیکن حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا وطن چھوڑنا اذیت ناک ترین تجربوں میں سے ایک ہے۔ دنیا میں جہاں بھی جائیں، پاکستانی ملتے ہیں لیکن کوئی کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہو، اس میں اک خاص قسم کا خلا اور ادھورا پن محسوس ہوتا ہے۔ ان میں اک ناقابل بیان قسم کا لاپتہ پن پایا جاتا ہے۔ سیر سپاٹے، سیاحت، بزنس یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے جانے والوں کی بات نہیں، ان کا ذکر کررہا ہوں جنہیں مجبوریاں لے جاتی ہیں اور ’’تارکین وطن‘‘ کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک آدھ نسل تو زندہ کھائی جاتی ہے۔ پاکستان انہیں آخری سانس تک ہانٹ کرتا رہتا ہے البتہ اگلی نسلجو باہر جنم لے کر باہر ہی پروان چڑھتی ہے، اس اذیت سے نکل جاتی ہے کیونکہ ان کے بچپن کی یادوں سے لیکر بزرگوں کی قبروں تک سب کچھ وہیں ہوتا ہے لیکن باقی الامان الحفیظ۔ جو یہاں رہ کر خود کو نہیں پال سکتے، پردیسی ہو کر پاکستان کو پالنے سنبھالنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ وطن کیلئے زرمبادلہ کا سرچشمہ، تارکین وطن لیکن وطن ان کے ساتھ کیا کرتا ہے؟میں ان کا دکھ نسبتاً بہتر طور پر سمجھ سکتا ہوں کیونکہ 80ء کی دہائی میں مجھے بھی کچھ عرصہ کیلئے خود ساختہ جلاوطنی کے اس عذاب سے گزرنا پڑا تھا۔ جذباتی روحانی کیفیت کا اندازہ اس شعر سے لگالیں جو دیار غیر پہنچنے کے بعد میرا پہلا ردعمل تھا۔بدن لے کر چلا ہوں جان پیچھے چھوڑ آیا ہوںوطن سے دور ہوں پہچان پیچھے چھوڑ آیا ہوںیہ بورنگ سی تمہید اس لئے ضروری تھی تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی رہے کہ وطن میں اہل وطن خصوصاً سرکاری کرتے دھرتے اور محکمے تارکین وطن کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ یوں تو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بدسلوکیوں کی کئی شکلیں اور مثالیں ہیں لیکن یہ خط اپنی مثال آپ ہے۔’’برادر محترم حسن نثار۔ السلام علیکم!میں 1970ء کے آغاز میں بیرون ملک گیا اور اس تمام پراسیس سے گزرا جس سے تقریباً ہر پاکستانی گزرتا ہے۔ کئی سال یورپ گزارنے کے بعد بھی پاکستان میرے اندر زندہ رہا اور ہے۔ پھر جوہر ٹائون لاہور میں اس وقت گھر بنایا جب یہ علاقہ تقریباً غیر آباد تھا۔ وجہ یہ کہ اس بہانے بچوں کی اپنے ملک سے وابستگی کی اک صورت رہے گی، چھٹیاں اپنے وطن میں گزارہ کریں گے۔ ایک دو وارداتوں کے بعد احتیاطاً اسلحہ کا لائسنس بھی بنوانا پڑا۔شہریت کی تبدیلی کے باعث میرا شناختی کارڈ غیر فعال ہو چکا تھا اور میں نے "POC"   (PAKISTAN ORIGIN CARD)بنوایا ہوا تھا۔ طریقہ کار کے عین مطابق ’’نادرا‘‘ فرنچائیز میں فیس جمع کروائی اور رجسٹریشن کیلئے ’’نادرا‘‘ کے دفتر حاضر/پیش ہوگیا۔ کافی سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہونے کے بعد جب میری باری آئی تو دفتری بابوئوں نے خوش خبری سنائی کہ ’’آپ پاکستانی نہیں ہیں، آپ کی رجسٹریشن نہیں ہوسکتی کیونکہ آپ کے شناختی کارڈ کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں جبکہ میرا شناختی کارڈ پہلے بنا ہوا تھا اور "POC"کا سارا ریکارڈ بھی ’’نادرا‘‘ میں موجود ہے۔ حکم ملا کہ میں ہیڈ آفس سے رابطہ کروں جو ایکسپو سنٹر جوہر ٹائون کے قریب ہے سو میں وہاں حاضر ہوگیا لیکن کوئی ڈھنگ کا تسلی بخش کارآمد جواب وہاں بھی نصیب نہ ہوا بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ ’’آپ اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں کیونکہ ابھی "POC"والوں کے بارے میں کوئی پالیسی ہی نہیں آئی۔ جب کوئی پالیسی آئے گی تو اخبارات میں بھی شائع ہوگی۔ تب آپ کا کچھ کرینگے‘‘۔ یہ دسمبر 2015کی بات ہے۔فیس جمع کرانے کے باوجود رجسٹریشن نہیں ہوسکی اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جب میرا اسلحہ لائسنس ایکسپائر ہو جائے گا تو میں کہاں کیسے ’’ری نیو‘‘ کرائوں گا کیونکہ ماضی کی طرح پوسٹ آفس والے تو کریں گے نہیں۔ ہماری حکومتیں ادھوری پالیسیز بناتی ہیں اور کوئی پالیسی بناتے وقت غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں کا تو بالکل ہی خیال نہیں کیا جاتا۔میں نے کسی سے کوئی انعام، ایوارڈ، تمغہ یا سرٹیفکیٹ نہیں لینا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم اوورسیز پاکستانی ہمیشہ پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ زلزلہ، سیلاب غرضکہ ہر مشکل اور بحران میں پیش پیش ہوتے ہیں لیکن ہر حکومت ہمارے ساتھ سوتیلی مائوں سے بھی بدتر سلوک کرتی ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔ میری گزارش ہے کہ POCکے بارے میں کوئی پالیسی بنائیں تاکہ ہم بیچارے اوورسیز پاکستانی اسلحہ لائسنس ہی ’’نادرا‘‘ میں رجسٹر کراسکیں۔چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ اگر رویے تبدیل نہ ہوئے، ترجیحات نہ بدلیں تو اوورسیز پاکستانیوں کی اگلی یا اس سے اگلی نسل کیلئے پاکستان قصہ پارینہ یا فقط ایک موہوم سا حوالہ رہ جائے گا جو کسی المیہ سے کم نہ ہوگا کہ اس کا ایک معاشی پہلو بھی ہے۔ پچھلے بیس بائیس سال میں غیر موجودگی کے دوران تیسری بار جب ہمارے یہاں کے گھر میں ڈاکہ پڑا تو زچ ہو کر میرے بیٹے نے کہا..... ’’آپ کیا ہر وقت پاکستان پاکستان کی مالا جپتے رہتے ہیں جہاں نہ کوئی سر ہے نہ پیر نہ لا اینڈ آرڈر نہ تحفظ۔ اوپر سے نیچے تک کرپشن، رشوت حرام تو بہتر ہے گھر بیچ باچ کر اپنے ساتھ ساتھ ہماری بھی جان چھڑائیں‘‘۔شکریہ محمود مرزا جوہر ٹائون لاہورقارئین!آپ بتائیں مرزا صاحب کو کیسے سمجھائیں کہ یہاں تو پاکستانیوں کا پرسان حال کوئی نہیں، اوورسیز پاکستانی کس کھاتے میں؟



.
تازہ ترین