• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ حتمی سیاسی خود کشی کی طرف لگائی جانے والی دوڑ ہے، جس میں آہستہ بھاگنے والاجیت جائے گا۔ اس دوڑمیں شریک ایک لین میں وزیر ِاعظم اور ان کی کچن کابینہ اور فیملی سے تعلق رکھنے والے رہنما ہیں، اور دوسری لین میں عمران خان اور اُن کی ٹیم ہے جو عمران خان کی دانش کو حرف ِ آخرسمجھتی ہے ۔ اس دوڑ میں نواز شریف نے سست روی کا طریق اپنایا ہوا ہے ، جبکہ عمران خان نے نہ صرف اپنے راستے میں ان گنت مائنز بچھا رکھی ہیں بلکہ نہایت جوش و جذبے کے ساتھ اس راہ پر سرپٹ ہیں۔
نوازشریف کی صورت ِحال پر غور کریں۔ پاناما لیکس مقدمے کا باریک بینی سے مطالعہ ظاہر کرتا ہے وزیر ِ اعظم کے اصل مسائل کا آغاز تو اب ہواچاہتا ہے ۔ بنچ نے مناسب تحقیقات کے لئے طریق ِکار کی منظوری دے دی ہے ۔ اس میں جانچ کرنے اور موقف سننے کا موقع ملے گا، لیکن پھر اس کی قیمت بھی چکانی پڑے گی۔جے آئی ٹی کے دائرہ ٔ کار کا تعین کردیا گیا ہے، اس کے طریق ِ کار کی بابت کوئی ابہام باقی نہیں کہ اس کی شفافیت اورموثر فعالیت کو یقینی بنانے کے لئے کیا میکانزم اپنا یا جائے گا۔ قوت ِ نافذہ رکھنے والابنچ (Implementation Bench) اس بات پر کڑی نظر رکھے گا کہ تحقیقات کرنے والے کس طرح معلومات حاصل کرتے اور حتمی نتائج نکالتے ہیں۔ یہ چیز شریف فیملی کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہے ۔ پاناما لیکس پر عوام کے سامنے اچھالے گئے بیانیے اور بنچ کے سامنے رکھے گئے مواد کے درمیان ایک وسیع تفاوت موجودتھا۔ فی الحال اُن کی طرف سے رقم کی ترسیل کا کوئی قابل ِ اعتماد ذریعہ نہیں پیش کیا گیا۔ یہ کئی ملین ڈالر کی غیر تصدیق شدہ ترسیل کا معاملہ ہے ۔ ابھی تک لندن فلیٹس کی ملکیت کا معاملہ بھی طے نہیں ہوا ، رقوم کی منتقلی کی تاریخیں ایک دوسرے سے میچ نہیں کرتیں، اور کسی مستند ریکارڈ کے بغیر قطری اور سعودی دوستوں کی طرف سے بھاری رقوم کے تحفے وصول کرنے کے دعوے مشکوک دکھائی دیتے ہیں۔
نواز شریف صاحب پاناما لیکس مقدمے کے فیصلے میں اس لئے نہیں بچے کہ اُن کا بیانیہ بہت پر معانی تھا، بلکہ اس لئے کہ فاضل جج صاحبان کی اکثریت آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات کے بارے میں واضح نہیں تھی، اور نہ ہی وہ اپنے طرز ِعمل سے ایسی مثال قائم کرنا چاہتے تھے جس میں اُن کا شمار ایسے منصفین میں کیا جائے جنہوں نے مشکوک حقائق کی بنیاد پر منتخب شدہ نمائندوں کو نااہل قرار دے دیا ۔ جسٹس اعجاز افضل خاں نے بہت فصیح زبان میں لکھا ہے ۔۔۔’’ہم کسی ایک کیس میں اُس طریق کار اور آئینی کردار کو نقصان نہیں پہنچائیں گے جس کی تعمیر میںہم نے صدیوں تک خون پسینہ ایک کردیا ہے ۔ ‘‘ شریف برادران کے اپنے دولت کی منتقلی کے اب تک سنائے گئے فسانے ٹرائل اور تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بے وقعت ہوجائیں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب اُنہیں اپنی رقوم کی منتقلی کے ٹھوس ، ناقابل ِ تردید اور قطعی ثبوت پیش کرنے ہوں گے تاکہ قوت ِ نافذہ رکھنے والا بنچ جے آئی ٹی کی تحقیقات کو عدالت کے سامنے نہ پیش کردے ۔ نیز پاناما لیکس کے فیصلے نے یہ امکان بھی پیدا کردیا ہے کہ عدالت جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹس پر ہی فیصلہ سنا دے۔ جیسا کہ فیصلے میں لکھا گیا ہے ۔۔۔’’ جے آئی ٹی کی مرحلہ اور یا حتمی رپورٹ وصول ہونے پر مدعاعلیہ نمبر 1(وزیر ِاعظم) کی نااہلی کا فیصلہ کردیا جائے گا ، اور اس ضمن میں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو احکامات جاری کئے جائیں گے۔ ‘‘
نواز شریف کیمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے ۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ دعویٰ خود بتاتا ہے کہ اُنھوں نے اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے ۔ شریف فیملی کچھ قربانی کے بکرے بھی تلاش کررہی ہے ، حالانکہ اس کے لئے برائے نام جواز موجود ہے ۔ اُنھوںنے اپنی ٹیم پر اُن کے کیس کو کمزور طریقے سے پیش کرنے کا الزام لگایا ہے کہ اس کی وجہ سے بنچ نے اُن کی کہانی کو قبول نہ کیا اور اختلافی نوٹ لکھنے والے جج حضرات نے ان کے موقف کو محض افسانہ طرازی سمجھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ وکلا کا نہیں، ان کااپنا قصور ہے ۔ وکلا ڈاکٹروں کی طرح کام کرتے ہیں۔ جو اُنہیں بتایا جاتا ہے ، وہ اسی کے مطابق نسخہ تجویز کردیتے ہیں۔ چنانچہ اب شریف فیملی کیا کرسکتی ہے جو وہ ایک سال تک نہ کرسکی ؟جو ثبوت وہ ایک سال تک پیش نہ کرسکے ، اب کہاں سے لائیں گے ؟فی الحال وزیر ِاعظم نے اپنے سیاسی کیرئیر کا سب سے شرمناک اور اہم کیس بہت سستی اور غفلت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بے ڈھنگے انداز میں ہینڈل کیا ہے ۔ اُنھوںنے اس موضوع پر اسمبلی میں اظہار ِ خیال کرتے اور اپنے بیٹے کو میڈیا کے سامنے عجیب وغریب متضاد دعوے کو ارزاں کرتے ہوئے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑا مار لیا ہے ۔ اس ریکارڈ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شریف فیملی کی پاناما کیس نمبر 2میں کارکردگی بھی ویسی ہی ہوگی جیسی اس کے پہلے مرحلے پر تھی ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شریف برادران طریق ِ کار کوسبوتاژ کرنے کی کوشش میں خود کوقانونی تباہی کا نشانہ بنا لیں۔ اس دوران کچھ دیگر مسائل بھی فضا کو گہرا کر رہے ہیں جیسا کہ ڈان لیکس سے پیدا ہونے والی بدمزگی اوربھارت سے ایک ’’دوست ‘‘ کی عین اُس وقت پر آمد جب کہ دونوں ممالک کے درمیان تنائو اپنی انتہائی سطح پر ہے ۔ کچھ قریبی رفقا کے علاوہ پارٹی رہنمائوں کو توہین آمیز طریقے سے نظر انداز کرنابھی سیاسی غلطی ہے ۔
یہ چیز عمران خان کے لئے ایک آسمانی نعمت ثابت ہونی چاہئے ، تاوقتیکہ وہ خود ہی بچھائی ہو ئی بارودی سرنگوں پر دوڑ لگانے کے خبط سے باز آجائیں۔ گزشتہ ہفتے اُن کی کارکردگی دیکھیں تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ وہ اپنا طاقتور ترین کارڈ ہمیشہ اپنے خلاف ہی چلتے ہیں۔ اُنہیں عزت ماب چیف جسٹس آف پاکستان نے سیاسی بصیرت اور رویے کی بابت ایک نصیحت کی ( جو کہ ایک نادر مثال ہے )۔ اُنہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی اہم سیاسی پوزیشن کا خیال کرتے ہوئے رائی کا پہاڑ بنانے سے گریز کریں۔ موجودہ کیس کے اختلافی نوٹ کے حوالے سے بھی اُنہیں سمجھا یا گیا۔ تاہم فاضل چیف صاحب نے دانائی سے بھرے ہوئے یہ الفاظ ادا کئے ہی تھے کہ عمران خان کئی ایک ٹی وی چینلز پر نمودار ہوئے اوردعویٰ کیا کہ شریف فیملی نے جج حضرات کو کئی بلین روپے پیش کئے ہوں گے ۔ اگرچہ اُنھوںنے اپنے الزام کے لہجے کو تبدیل کرتے ہوئے ججوں کی تعریف بھی کی کہ اُنھوں نے مبینہ رشوت کی کوشش کو ٹھکرادیا ، لیکن زیر لب وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے ، وہ فاضل جج حضرات کے لئےلئے پریشانی کا باعث ہوگا ۔
اس پر مستزاد، عمران خان بدستور یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اختلافی نوٹ اکثریتی بنچ کے فیصلے سے زیادہ مقبول ہے ۔ ایک ٹی وی شو میں اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ پانچ ججوں کی طرف سے پانچ فیصلے آئے ، اور تین نے ایک بات کی اور دو نے دوسری۔
سوچ سمجھ سے عاری میزبان سرہلاتا رہا اور خاں صاحب کو یہ بات نہ سمجھائی کہ ایک بنچ کی طرف سے فیصلہ آیاہے ، جس پر دو اختلافی نوٹ ہیں،ا ور ان اختلافی نوٹس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ۔ تاہم کچھ جج حضرات کی تعریف کرنا اوراس دوران کندھے اچکاتے ہوئے ادھورے جملوں اور زیر لب مسکراہٹ سے کہنا کہ دوسرے بھی بہتر فیصلہ کرسکتے تھے، بین السطور کوعریاں کردیتاہے ۔ صرف یہی نہیں، نوازشریف پر دس ارب روپے کی ذہن چکرادینے والی پیش کش کرنے کا الزام لگانے کے بعد عمران خان کی چکربازیاں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ۔ نواز شریف سے لے کر شہباز شریف اور پھر حمزہ شہباز سے لے کر کسی مشترکہ دوست اور پھر دوست کے دوست ( جس کانام لینے سے گریز باقی ہے ) پر رقم پیش کرنے کا الزام ایک لطیفہ بن چکا ہے ۔عمران خان جیسے لیڈر کو ایسا کرتے دیکھنا ایک سانحے سے کم نہیں۔
یوٹرن لیتے ہوئے عمران خان نے وہ حوالہ دیا جس میں شہباز شریف کی طرف سے جنرل آصف نواز کو ایک بی ایم ڈبلیو پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس مثال کا مطلب یہ تھا کہ شریف برادران ججوں، صحافیوں اور جنرلوں کو رشوت دیتے رہے ہیں۔ کیا عمران خان آج کے پاکستان کے ماحول میں اس مثال کے مضمرات کو سمجھتے ہیں ؟ شریف برادران کے منفی ہتھکنڈوں کو منظر ِعام پر لانے کی کوشش میں وہ اپنی سیاسی بصیرت سے بھی دستبردار ہورہے ہیں۔ اس کا نقصان کسی اور کو ہو نہ ہو، اس سے یہ بات ضرور واضح ہوتی جارہی ہے کہ وہ بلا سوچے سمجھے جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب اُنھوں نے اپنی ساکھ کو بہتر بنانا تھا تاکہ اپنے سیاسی حریفوں کی مجروح ہوتی ہوئی ساکھ سے فائد ہ اٹھا کر سامنے آسکیں، لیکن وہ خود کو افسوس ناک تنازعات میں الجھا رہے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کے ٹائیگرز اُن کے کتنے شیدا ئی ہیں۔ اُن سے توقع کی جارہی تھی کہ پاناما لیکس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلامیں وہ اپنی مقبولیت کو بڑھائیں گے لیکن وہ اپنی سابقہ مقبولیت پر ہی قناعت کرنے والے نکلے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی بھی اپنی منزل سے اتنی ہی دور ہیں جتنے کبھی تھے ۔اپنی ہی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں،اور وہ جب بھی زبان کو زحمت دیتے ہیں، یہ ڈھیر بڑا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہمارا سیاسی منظر نامہ خود کشی کی کوشش سے عبارت ہے۔ جو خود کو کم زخم لگاپائے گا، وہ مقابلہ جیتے گا۔ کیا اس سے زیادہ افسوس ناک منظر کوئی اور ہوسکتا ہے؟



.
تازہ ترین