• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’میں نائیجریا کے سابق وزیر پیٹرولیم کی بیوہ ہوں، میرے نام پر مختلف بینک اکائونٹس میں 50 ملین ڈالرز کی خطیر رقم موجود ہے جسے میں آپ کے توسط سے بیرون ملک منتقل کرنا چاہتی ہوں اور اس کیلئے مجھے آپ کی مدد درکار ہے، آپ مجھے اپنا اکائونٹ نمبر اور تفصیلات فراہم کردیں تاکہ یہ رقم آپ کے اکائونٹ میں منتقل کی جاسکے، آپ کی اِن خدمات کے صلے میں نصف رقم کے حقدار آپ ہوں گے۔‘‘
’’میرا نام عائشہ قذافی ہے اور میں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کی بیوہ ہوں۔ شوہر کی وفات کے بعد مختلف بینکوں میں ہماری 100ملین ڈالرز سے زائد رقوم موجود ہیں، میں آپ کے ادارے میک اے وش پاکستان کی فلاحی سرگرمیوں سے بہت متاثر ہوئی ہوں اور اپنی نصف رقم آپ کے فلاحی ادارے کو منتقل کرنا چاہتی ہوں، اس سلسلے میں مجھے آپ کی مدد اور بینک اکائونٹ کی تفصیلات درکار ہیں۔‘‘
میرے لئے اس طرح کی پرکشش پیشکش کا موصول ہونا روز کا معمول ہے جسے میں مسکرا کر نظر انداز کردیتا ہوں مگر کچھ لوگ لالچ میں اِن جعلسازوں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور جب وہ رقم کی پیشکش کرنے والے سے رابطہ کرتے ہیں تو یہ دلیل دی جاتی ہے کہ رقم ٹرانسفر کرنے کے بینک چارجز موصول ہونے کے بعد مذکورہ رقم آپ کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کردی جائے گی لیکن اس کے باوجود وہ رقم کبھی موصول نہیں ہوتی جبکہ بینک اکائونٹ کی ِتفصیلات کو غلط مقاصد کیلئے استعمال کرکے شدید مالی نقصان پہنچایاجاتا ہے۔ انٹرنیٹ جہاں دور جدید میں لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے اور معلومات کا مفید ذریعہ ہے، وہیں اس کے غلط استعمال سے لوگوں کی پریشانیوں اور مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ کچھ جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل افراد اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلسازی کے نت نئے طریقے اپناکر اسے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں اور آئے دن نت نئی کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ان کی جعلسازیوں کا شکار ہورہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک تعلیم یافتہ فیملی نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اُن کی ایک ملین ڈالر کی لاٹری نکلی ہے، اس بارے میں انہوں نے کچھ متعلقہ ای میلز اور بینک کاغذات بھی دکھائے۔ فیملی کے بقول لاٹری کے ادارے نے انعامی رقم اُن کے اکائونٹ میں منتقل کرنے اور کاغذی کارروائی کیلئے ان سے بطور فیس 4 ہزار ڈالر طلب کئے تھے اور کہا تھا کہ فیس موصول ہونے کے بعد ایک ملین ڈالر کی انعامی رقم اُن کے اکائونٹ میں منتقل کردی جائے گی۔ مذکورہ فیملی کو اس بات پر پورا یقین تھا کہ اللہ نے اُن کی سن لی ہے اور اُن کی لاٹری نکل آئی ہے۔ میں نے فیملی کے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے اس لاٹری میں حصہ لیا تھا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا جس پر میں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ آپ لاٹری کے ادارے سے کہیں کہ وہ انعامی رقم سے مذکورہ فیس منہا کرکے باقی رقم آپ کو بھیج دے مگر جب فیملی کے لوگوں نے ایسا کیا تو وہاں سے آج تک کوئی جواب نہ آیا۔
مالی فراڈ کرنے والے جرائم پیشہ افراد نت نئے طریقوں سے لوگوں کو لوٹتے ہیں اور جب کوئی طریقہ پرانا ہو جاتا ہے یا لوگ اُس سے آشنا ہو جاتے ہیں تو جرائم پیشہ افراد کا شاطر دماغ کوئی نیا طریقہ دریافت کر لیتا ہے۔ کچھ عرصے قبل دبئی میں مقیم ایک لیڈی ڈاکٹر کو نائیجیریا سے ای میل موصول ہوئی کہ ’’قرعہ اندازی میں ایک ملین ڈالر کی انعامی رقم آپ کے نام پر نکلی ہے جسے ہم آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں، آپ اپنا فون نمبر دے دیں، ہمارا آدمی آپ سے رابطہ کرکے رقم پہنچادے گا۔‘‘ کچھ دنوں بعد ایک نائیجرین باشندے نے خاتون سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ سفری اخراجات اور کمپنی کا کمیشن جو کہ 5ہزار ڈالر بنتا ہے، لے کر فلاں مقام پر آجائیں اور ایک ملین ڈالر کی رقم لے جائیں۔‘‘ مذکورہ خاتون مطلوبہ رقم لے کر جب مقررہ جگہ پہنچیں تو جعلسازوں نے خاتون سے 5ہزار ڈالر وصول کرنے کے بعد اُنہیں نوٹوں سے بھرا ایک بیگ تھمادیا لیکن جب وہ ڈالرز لے کر ایکسچینج کمپنی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ ڈالرز جعلی تھے جس پر ایکسچینج کمپنی نے خاتون کو پولیس کے حوالے کردیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی گزشتہ دنوں یہ دعویٰ کیا کہ ’’شریف خاندان کے ایک قریبی دوست نے اُن سے رابطہ کرکے خاموش رہنے کیلئے 10 ارب روپے کی پیشکش کی۔‘‘ عمران خان کا یہ دعویٰ سن کر میرا ذہن مذکورہ بالا کہانیوں کی طرف چلا گیا کہ کہیں عمران خان کے ساتھ بھی کوئی شخص اِسی طرح کا ہاتھ تو نہیں کررہا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ عمران خان نے اُس شخص کی پیشکش قبول نہیں کی ورنہ اُن سے بھی کوئی 10ارب روپے کی رقم پر اپنا بھاری کمیشن وصول کرکے جعلی کرنسی نوٹ تھمادیتا۔ عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ 10ارب روپے کی اس پیشکش کو سنجیدہ نہ لیں کیونکہ آج کے دور میں ایسی پیشکشیں آنا معمول کی بات ہے لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ عمران خان نے 10ارب روپے کی پیشکش کا انکشاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد کیا، اگر وہ فیصلے سے قبل یہ انکشاف کردیتے تو شاید اُن کا یہ اقدام فیصلے پراثر انداز ہوسکتا تھا۔ عمران خان کی اس شخص کا نام نہ بتانے کی منطق بھی سمجھ بالاتر ہے، اگر عمران خان ایسا کرکے اُس شخص کو انتقامی کارروائی سے بچانا چاہتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیشکش کرنے والے کو اُس شخص کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوگا اور کیا وہ اس طرح انتقام سے بچ جائے گا؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ مذکورہ شخص کا نام اگر آج منظر عام پر لایا جائے تو اس شخص سے انتقام لینا ممکن نہ ہو۔
عمران خان پاکستان کی سیاست میں کافی عرصے سے سرگرم ہیں لہٰذا اب اُنہیں اس طرح کے بچکانہ بیانات دینے اور الزامات لگانے سے گریز کرتے ہوئے سنجیدگی اور تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس سے قبل عمران خان 35 پنکچر کا الزام بھی لگاچکے ہیں لیکن یہ الزام بھی وہ ثابت نہیں کرسکے۔ اُنہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مقبولیت اور اقتدار کے حصول کیلئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ شریف برادران قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ انہوں نے رشوت کی پیشکش نہیں کی، مناسب نہیں۔ زیادہ اچھا ہے کہ سیاستدان، قرآن پاک کو سیاست میں نہ لائیں کیونکہ اگر دوسری طرف سے بھی اُن سے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کوئی سوال پوچھا گیا تو شاید وہ اور ملک کے بیشتر سیاستدان آرٹیکل 62اور 63پر پورے نہ اتریں۔



.
تازہ ترین