• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان سے تو پانامہ فیصلے کی اپنی اپنی سیاسی تشریحات، عمران خان کے مسلسل ایجی ٹیشن، کرپشن، پی پی پی کے جوشیلے بیانات ،داخلی سیاسی اضطراب اور پاک۔ بھارت کشیدگی کے حوالے سے آنے والی عدم استحکام کی خبریں امریکہ اور کینیڈا کے پاکستانیوں کیلئے تشویش کا سبب ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ بھی پاک۔ امریکہ تعلقات بارے اپنی ’’پالیسی ریویو‘‘ کے نام پر ’’خامشی‘‘ اختیار کئے ہوئے ہے، لیکن اب امریکہ و کینیڈا میں آباد پاکستانیوں کی نئی نسل یہاں کی معاشی، معاشرتی اور علمی زندگی میں اب اپنے قدم جما رہی ہے۔ اگلے چند روز میں اسکولوں میں موسم گرما کی تعطیلات سے قبل طلبہ و طالبات کے فائنل رپورٹ کارڈ جاری ہوں گے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں گریجویشن کے اجتماعات و تقریبات ہوں گی تو بلامبالغہ سینکڑوں پاکستانی نژاد طلبہ و طالبات کی مثالی تعلیمی پرفارمنس کی اطلاعات سامنے آئیں گی۔ اسی تناظر میں مجھے اپنی یادداشتوں کے پٹارے میں سے 1970ء کے عشرے کی چند پاکستانی شخصیات کا ذکر کرنے کی اجازت دیں جنہوں نے پاکستان میں غیرجمہوری نظام پر تنقید کا علمی کام کر کے حکومتوں اور نظام کی ناراضی مول لی لیکن امریکہ و کینیڈا میں ممتاز علمی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود اپنی پاکستانی شناخت کو اس وقت بھی قائم رکھا جب امریکہ و کینیڈا میں پاکستانیوں کی آبادی بھی محض برائے نام تھی۔ کینیڈا کی ممتاز میکگل یونیورسٹی کے ڈین آف انجینئرنگ پروفیسر سعید مرزا مرحوم، یونیورسٹی آف البرٹا کے پروفیسر ایمریٹس سلیم ایم ایم قریشی مرحوم اور کوئینز یونیورسٹی کینیڈا کے پروفیسر ایمریٹس خالد بن سعید مرحوم سے مجھے ذاتی مراسم اور ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا۔ کئی کئی کتب کے مصنف اور علمی شخصیات کے طور پر یہاں کے نظام میں بھی ممتاز اور محترم حیثیت کے حامل تھے مگر اپنی پاکستانی شناخت کو برقرار رکھا، ہاں پاکستان کے سیاسی اور غیرجمہوری نظام کے ہاتھوں پاکستانی عوام کے استحصال کے خلاف ضرور تھے۔ اپریل 2011ء میں دُنیا سے رُخصت ہونے والے پروفیسر خالد بن سعید مرحوم کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے 60 کے عشرے میں اُن کی ایک کتاب میں لکھی تنقید پر ناراض ہو کر انہیں 24 گھنٹے میں پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ جب 90 کے عشرے میں کنگسٹن کینیڈا میں میری ملاقات ہوئی تب بھی اس سلوک پر وہ شاکی تھے مگر پاکستانی شناخت برقرار نظر آئی۔ اسی طرح نومبر 2016ء میں انتقال کرنے والے پروفیسر سلیم ایم ایم قریشی خود شعر و اَدب کے دلدادہ اور اُن کی کینیڈین اہلیہ ریگولا قریشی، صوفیانہ کلام پر تحقیق اور ستار بجانے کا فن سیکھے ہوئے تھیں۔ دُور کیوں جایئے، پنسلوانیا کی ولانووا یونیورسٹی میں بیٹھے ہوئے پروفیسر ایمریٹس حفیظ ملک کو لے لیجئے۔ امریکہ کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران اُدھر جانا ہوا تو سلام کرنے کی غرض سے بڑی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے بھی ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے مگر کوئی عہدہ نہیں لیا۔ امریکی سنٹرل کمان کے سابق سربراہ جنرل زینی بھی ان کے شاگرد رہے ہیں۔ پروفیسر حفیظ ملک تمام سیاسی موضوعات پر کتابیں لکھنے کے بعد اب اپنے پرانے لاہور دوست ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی فرمائش پر اُن کے والد علامہ اقبال پر کتاب مکمل کر رہے ہیں۔ حفیظ ملک 60کے عشرے میں ہی ایک یونیورسٹی کی پروفیسر شپ کے عہدے پر اپنی مثالی پرفارمنس کی بدولت فائز ہوگئے تھے مگر اپنی پاکستانی شناخت، لاہور کی تاریخ و ثقافت، اندرون شہر کی گلیوں کے نام اور ماحول کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال امریکہ آتے تو پروفیسر حفیظ ملک سے ملاقاتیں اور قیام ضروری تھا۔
حال ہی میں مجھے نیویارک میں ایک عالمی شہرت یافتہ تنظیم ’’انٹرسیکشن‘‘ کے ایک ڈنر اور اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔ 95فیصد شرکاء امریکی اور غیرپاکستانی تھے۔ مختلف مذاہب کے درمیان رواداری مختلف نسلی، ثقافتی اور مذہبی کمیونی ٹیز کے درمیان روابط اور ہم آہنگی کا مشن لئے اس دس سالہ تنظیم کے سالانہ ایوارڈز کی تقریب میں ریاست ٹیکساس کے ایک پاکستانی۔ امریکی ریاض صدیقی کو بھی کمیونٹی ایڈوانسمنٹ اور انسانی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دیا گیا جو اپنی فیملی کے ساتھ نیویارک کی اس تقریب میں موجود تھے اور ایوارڈ ملنے پر انہوں نے نے جس سادگی اور عاجزی سے اپنی پاکستانی اور مسلم شناخت کا حوالہ دیا وہ بہت خوبصورت اور مؤثر انداز تھا۔ اُن سے مختصر گفتگو ہوئی تو کئی ارب ڈالرز کے اثاثوں کی مینجمنٹ کرنے والی فرم کے بانی اور منیجنگ پارٹنر نے کسی تکبر اور پروٹوکول سے بے نیاز ہو کر ماڈل ٹائون لاہور کی رہائش، اسکول اور کالج کی تعلیم سے لے کر انجینئرنگ یونیورسٹی باغبانپورہ سے ڈگری حاصل کرنے کی یادیں بڑی سادگی سے دُہرا دیں۔ پھر 1977ء میں امریکی ریاست مسی سپی میں مزید تعلیم کیلئے صرف پہلے سمسٹر کی ٹیوشن فیس اور اخراجات کیلئے 1760 امریکی ڈالرز کی کل پونجی لے کر امریکہ آنے کی تفصیل بھی بتا دی۔ مزید گفتگو کیلئے دوسرے روز ملاقات کا پروگرام طے کیا مگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی پھر مارکیٹ، گوگل کے ریکارڈ نے بھی واضح کیا کہ پاکستانی۔ امریکن ریاض صدیقی امریکہ میں انرجی گیس اور پٹرولیم کی بزنس میں ایک بڑا نام ہے۔ریاض صدیقی نے 7 جنوری 1977ء کو ماں کی بہت سی دُعائوں اور نصیحتوں کے ساتھ تعلیم کیلئے امریکہ آنا اور پھر مختلف ملازمتیں کر کے، ڈش واشنگ کے کام کر کے اپنی تعلیم مکمل کرنے کی تفصیل بڑی سادگی اور روانی سے مجھے بتائی۔ بزنس مینجمنٹ کی ڈگری کیلئے محنت اور ملازمت کر کے 3.99 جی پی اے حاصل کرنے کوماں کی دُعائوں کا نتیجہ بیان کیا۔ پھر مختلف کمپنیوں سے وابستگی اور ذمہ دار پوزیشنوں پر کام کرتے ہوئے اپنی کمپنی کا قیام اور اثاثوں کی ترقی کے مدارج طے کرنے والے ریاض صدیقی پھر اپنی پاکستانی شناخت کا ذکر کرتے ہوئے لاہور کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں نوجوانی میں راک بینڈ بجانے کی یاد دُہرا گئے۔ وہ ضرورتمند انسانوں کی خدمت، فروغ تعلیم اور فلاحی کاموں میں حصہ لینے کو بھی اپنے والدین کی تربیت اور بچپن میں کسی ماہ کھلونے سے محرومی کو کریڈٹ دیتے ہیں۔ گیس، بجلی اور انرجی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور بزنس کا یہ ماہر ریاض صدیقی بھی بجلی کے بحران کے شکار پاکستان کا ہی ایک سپوت ہے۔ کیا ہمارے پاکستانی نظام کے اجارہ داروں کو توانائی کے بحران میں حل یا تعاون کیلئے اس ماہر باصلاحیت پاکستانی کی یاد آئی؟ ظاہر ہے پاکستانی سسٹم کے کنٹرولرز کا مفاد کچھ اور ہے۔ کامیابی اور ترقی کی تمام منازل طے کرنے والے ریاض صدیقی اپنے خاندان اور جوان اولاد کے ساتھ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی اپنی پاکستانی شناخت کو خوشی سے برقرار رکھتے ہوئے امریکی کارپوریٹ لائف کا نمایاں حصہ ہیں۔
اُدھر پڑوسی کینیڈا میں پاکستانی ہائی کمیشن میں متعین میرے مہربان پریس منسٹر ندیم کیانی نے ایک تازہ ای میل سے مطلع کیا ہے کہ یونیورسٹی آف اٹاوا کے پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر سیّد عبدالستار (فیکلٹی آف میڈیسن) کو امریکن سوسائٹی آف ٹیسٹنگ اینڈ میٹریلز نے اُن کی طویل خدمات اور ’’گرائونڈ بریکنگ‘‘ تحقیقی کام کے اعتراف میں 2017ء کا انٹرنیشنل میرٹ ایوارڈ دیا ۔ 1949ء سے قائم یہ ایوارڈ کسی فرد کے لئے سوسائٹی کا سب سے اعلیٰ ترین ایوارڈ ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق ڈاکٹر ستار اب تک 20 سے زائد ممالک کے ریسرچ کرنے والے محققین کی تربیت و نگرانی کر چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کا حصہ بھی ہیں۔ وہ گزشتہ 40 سال میں اپنے شعبے میں کینیڈا اور دیگر 35 ممالک میں 150 سے زائد تحقیقی مقالے پیش کر چکے ہیں اور پاکستان کے بعض علمی اداروں سے بھی تعاون کرتے رہتے ہیں۔ اس قدر مصروف اور مائیکرو بیالوجی کے شعبے میں محققانہ زندگی گزارنے والے ڈاکٹر سیّد عبدالستار بھی اپنی عالمی شناخت اور ایوارڈ کے باوجود اپنی پاکستانی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن کیا پاکستان کے سیاسی نظام کے مالکوں کو اس خوشگوار حقیقت کی کوئی پروا ہے؟ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو محض حکمرانوں اور سیاستدانوں کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ’’آپ بھی پاکستان کے سفیر ہیں۔‘‘ ان کی صلاحیتوں، خدمات اور افادیت کو تسلیم کرنا لازمی ضرورت ہے۔


.
تازہ ترین