• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھائی لینڈ اب وہ نہیں رہا۔ لوگ اکھڑ ہو گئے ہیں، چہروں پر مسکراہٹ نظر آنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتی ہے، لوگ محنتی ہیں مگر طبیعت میں ٹھگی ہے، ٹیکسی میں میٹر لگے ہیں مگر کم ہی ڈرائیور میٹر کے مطابق چلنے پر تیار ہوتے ہیں، پولیس کا کہو تو آگے سے قہقہہ لگاتے ہیں، قول کے البتہ پکے ہیں، جو بات طے کر لیں پھر اس پر قائم رہتے ہیں، یوٹرن نہیں لیتے، مذہب صرف عبادت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، بچوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام قدرے کم ہو گیا ہے، جگہ جگہ عبادت گاہیں نظر آتی ہیں مگر ساتھ ہی شراب خانے اور صنم کدے بھی، شاپنگ اب بھی ویسی ہے، گو کہ تھائی بھات سوا تین روپے کا ہو گیا ہے مگر اب بھی ’’وارے‘‘ میں ہے۔ بادشاہ کی تکریم میں بھی کوئی فرق نہیں آیا، بدھا کے بعد تھائی لوگ بادشاہ کو تقریباً پیغمبر کا درجہ دیتے ہیں، تمام اہم مقامات پر بادشاہ کی قد آدم تصاویر لگی ہیں، سیاست کے معاملے میں بادشاہ محتاط ہے، براہ راست مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے، مرحوم بادشاہ کی دلچسپی فلاحی کاموں میں زیادہ تھی، ملک کے طول و عرض کے وہ دورے کرتا، محل میں بیٹھنے والا بادشاہ وہ نہیں تھا۔ فوجی بغاوت کا حال یہ ہے کئی مرتبہ حکومت کا تختہ الٹنے کے باوجود تھائی عوام اسی شخص کو مسند اقتدار پر بٹھانا پسند کرتے ہیں جسے فوجی جنتا ناپسند کرتی ہے، ان غیر جمہوری حکومتوں نے تھائی لینڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔
یار طرحدار گل نوخیز اختر اور اجمل شاہ دین کے دو ہی شوق ہیں، دیسی کھانا ڈھونڈ کے کھانا اور اس کے بعد لمبی تان کے سو جانا۔ بنکاک سے پتایہ تک کا سفر اس بحث میں گزرا کہ پتایہ میں دیسی کھانا دستیاب ہو گا یا نہیں۔ پتایہ پہنچ کے احساس ہوا کہ یہاں ایک الگ دنیا آباد ہے، ساحل کے کنارے زندگی سے بھرپور یہ شہر بنکاک سے تقریباً اڑھائی گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے، سمندر کا پانی سبز ہے، تصویروں میں نیلا لگتا ہے، لیکن نہایت شریف النفس قسم کا سمندر ہے، موجیں ساحل تک پہنچتے پہنچتے بے دم ہو جاتی ہیں۔ پہلی نظر میں یوں لگتا ہے جیسے پورا شہر ساحل کے کنارے آباد ہو مگر بعد میں احساس ہوتا ہے کہ پتایہ شہر چار سُو پھیلا ہے، چکا چوند روشنیوں اور کان پھاڑ دینے والی موسیقی رات کے پچھلے پہر تک پورے شہر میں گونجتی ہے، بنکاک بھلے دارالحکومت ہے مگر پتایہ بنکاک سے بھی چار ہاتھ آگے دکھائی دیا، دنیا کے ’’ضرور دیکھنے‘‘ والے شہروں کی اگر فہرست بنائی جائے تو پتایہ اس فہرست میں یقیناً شامل ہوگا۔ پتایہ کا Tiffany Showدنیا بھر میں مشہور ہے، یہ شو مسلسل چالیس برس سے اسٹیج کیا جا رہا ہے، دنیا بھر سے سیاح یہ شو دیکھنے آتے ہیں، اگر آپ تھائی لینڈ جائیں تو پتایہ کے بغیر آپ کی سیر مکمل نہیں ہوگی اور پتایہ میں Tiffanyدیکھے بغیر واپس آنا ایسے ہی ہے جیسے بندہ لاہور کے ٹیکسالی گیٹ جائے اور پھجے کے پائے کھائے بغیر واپس آجائے۔ اس شو میں تین خاص باتیں ہیں، پہلی، اس کے فنکار، خواجہ سرا اس میں پرفارم کرتے ہیں اور وہ ایسا شاندار رقص کرتے ہیں کہ سوا گھنٹے تک وہاں بیٹھا کوئی شخص پلک نہیں جھپک سکتا۔ دوسری، گانوں کا انتخاب، مختلف ممالک کے گانوں کے مطابق اسٹیج سجایا جاتا ہے اور ہر گانے کے بعد اسٹیج مکمل تبدیل کر کے ایک نئی دنیا یوں سجا دی جاتی ہے کہ حاضرین جان ہی نہیں پاتے کہ یہ کب ہوا۔ تیسری خاص بات، فنکاروں کا لباس اور تیاری، خواجہ سراؤں کا میک اپ اور کاسٹیوم ایسا حیران کن کہ نظر نہیں ہٹتی، روزانہ تین شو ہوتے ہیں اور ایسی پرفیکشن کہ مجال ہے اسپاٹ لائٹ ایک انچ اِدھر اُدھر ہو جائے یا ایک لمحے کی تاخیر ہو جائے۔ ایک ہم ہیں، ساری عمر نیلام گھر سے آگے نہیں نکل سکے اور وقت کے ساتھ اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا۔
شو کے بعد حسب معمول دیسی کھانے کی تلاش شروع ہوئی، اجمل نے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کی واک کے بعد بالآخر ایک بنگلہ دیشی ریستوران تلاش کر ہی لیا، یہ اور بات ہے کہ اس قسم کے ریستوران پتایہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں تھا، واپسی پر میں نے تین کلومیٹر واک کروا کے بدلہ چکایا۔ ریستوران میں بھارتی خواتین کا ایک گروپ لنچ کر رہا تھا، ہماری گفتگو سے انہیں اندازہ ہوا کہ ہم پاکستان سے ہیں، پوچھا کس شہر سے ہیں، میں نے کہا ’’لاہور‘‘۔ اس کے جواب میں انہوں نے بے ساختہ ’’او واؤ‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور جس حسرت سے ہمیں دیکھا اس نے غرور سے ہمارا سر بلند کر دیا۔ ملائشیا کی طرح یہاں بھی بھارتی جگہ جگہ پائے جاتے ہیں اور اِن کی مارکیٹنگ کا سب سے بڑا ذریعہ بالی وڈ ہے، ٹیکسی ڈرائیور بھلے تھائی ہو مگر شاہ رخ کا نام اس نے سُن رکھا ہے اور بھارتی گانے بلاسمجھے گنگنا بھی لیتا ہے، لوگوں کے ذہنوں میں بھارت کا وہی امیج ہے جو بھارتی فلموں میں انہیں دکھایا جاتا ہے، شائننگ انڈیا۔ بنکاک سے پتایہ تک ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ تھائی لوگ بے حد محنتی ہیں، پاکستانیوں کی مڈل اور لوئر مڈل کلاس بھی کم محنت نہیں کرتی مگر تھائی مرد اور عورتیں جتنا کام کرتے ہیں ویسا کلچر ہمارے ہاں نہیں، جس ملک کے خواجہ سرا محنت کے بل بوتے پر ایک بین الاقوامی سطح کا شو تیار کر لیں اس ملک کی بقایا محنت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تھائی لینڈ صلح جُو لوگوں کا ملک ہے، بدھ مت کے پیروکاروں کی سر زمین ہے، اخلاق میں وہ بات تو نہیں رہی مگر اب بھی یہ سیاحوں کی ایسی جنت ہے جہاں دوزخ کا تمام سامان موجود ہے، جو ایک مرتبہ تھائی لینڈ آ جائے، پھر تھائی لینڈ اس کے دل سے نہیں نکلتا، وجہ چاہے وہ جو مرضی بتاتا پھرے!
کالم کی دُم:یہ کالم پتایہ سے بنکاک واپسی پر ٹیکسی میں لکھا گیا، ڈرائیور نہایت باتونی تھا، دماغ کی اس نے لسّی بنا دی، سو کالم کی تمام خرابی کا ذمہ دار وہ ہے جبکہ داد کا مستحق یہ خاکسار۔ اپنے ملک میں تو یہی چلن ہے، اس بات کو میں ٹویٹ کر کے بھی ثابت کر سکتا ہوں۔



.
تازہ ترین