• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور جاپان کے درمیان سفارتی تعلقات کے پینسٹھ برس مکمل ہونے پر دونوں ممالک کی جانب سے سفارتخانوں کی سطح پر تقاریب کا اہتمام تو نئے سال کی شروعات سے ہی جاری ہے تاہم دونوں ممالک کے تجزیہ نگاروں اور قومی امور کے ماہرین اس بات کے انتظار میں تھے کہ سفارتی تعلقات کے پینسٹھ برس مکمل ہونے پر دونوں ممالک کے سربراہ مملکت کی جانب سے ایک دوسرے کے ممالک کا خیر سگالی دورہ کیا جاتا ہے یا نہیں خاص طور پر جاپان کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے حکومت پاکستان جاپانی وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کے انتظار میں اس لئے بھی تھی کہ پاکستان کے کئی سربراہ مملکت جاپان کا دورہ کرچکے ہیں اور حکومت پاکستان کی جانب سے کئی دفعہ سرکاری طور پر جاپانی وزیر اعظم کو سرکاری دورے کی دعوت کے باوجود بھی جاپانی وزیر اعظم پاکستان کا دورہ نہیں کرسکے تاہم اب یہ اطلاعات موصول ہوچکی ہیں کہ جاپانی حکومت کی جانب سے وزیر اعظم تو نہیں تاہم انتہائی اہم شخصیت جاپان کے نائب وزیر خارجہ نوبو کیشی پاکستان کے خیر سگالی دورے پر تین مئی کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں ،Mr. KISHI, Nobuoنہ صرف جاپان کے نائب وزیر خارجہ ہیں بلکہ جاپان کے موجودہ وزیر اعظم شنزا ابے کے چھوٹے بھائی بھی ہیں اور حکومت میں انتہائی با اثر سمجھے جاتے ہیں ان کے دورے پاکستان کے تمام انتظامات مکمل ہوچکے ہیں جہاں وہ پاکستانی وزیرا عظم میاں نواز شریف سے ملاقات کریں گے جبکہ جاپانی سفارتخانے میں پاکستان اور جاپان کے سفارتی تعلقات کے پینسٹھ برس مکمل ہونے پر ہونے والی تقریب میں بھی شرکت کریں گے اگلے روز وہ کراچی روانہ ہونگے اورمزار قائد پر حاضری دیں گے ،گورنر سندھ محمد زبیر سے ملاقات کے علاوہ پاک جاپان بزنس فورم کے وفد سے ملاقات بھی کریں گے، جاپانی نائب وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان صرف علامتی نوعیت کا دورہ ہوگا اس دورے میں پاکستان کے حوالے سے کوئی خاص پیشرفت کی توقع نہیں ہے جبکہ اسی دوران پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تین روزہ دورے پر تین مئی کو ہی ٹوکیو پہنچ رہے ہیں اسحاق ڈار کا دورہ بھی جاپان کا سرکاری دورہ نہیں ہے بلکہ وہ جاپان میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچ رہے ہیں جہاں توقع ہے کہ ان کی جاپان کے وزیر خزانہ سے بھی ملاقات ہوسکتی ہے ۔دیکھا جائے تو پاکستان اور جاپان کے درمیان سفارتی تعلقات کے پینسٹھ برس مکمل ہونے پر دونوں ممالک کے تعلقات سفارتی حکام بہترین قرار دیتے ہوں لیکن دونوں ممالک کے تعلقات کا بہت قریب سے جائزہ لینے والے صحافی اور تجزیہ نگار ان تعلقات کو اس سطح پر نہیں دیکھتے جہاں انھیں ہونا چاہیے تھا، دونوں ممالک کے تعلقات کو مثالی قرار دینے والے حکام کو شاید جاپان کی پندرہ سو ارب ڈالر کی مجموعی تجارت میں پاکستان کے ساتھ صرف دو ارب ڈالر مثالی لگتے ہیں جن میں پاکستان کی جاپان کے لئے برآمدات صرف چار سو ملین ڈالر ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان پینسٹھ برسوں کی شروعات میں چاہے پاکستان نے جاپان کی مدد کی ہواور اس کے بعد جاپان نے پاکستان کی بھرپور مالی امداد سمیت تکنیکی امداد میں بھی کوئی کسرنہ چھوڑی ہولیکن اکثر و بیشتر دونوں ممالک نے آپس کے وہ تعلقات انجوائے نہیں کیے جنھیں مثالی کہا جاسکے، کئی دفعہ پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں پاکستان پر چین کا اثر حاوی ہونے کے سبب پاک جاپان تعلقات دھندلاتے نظر آئے تو کئی دفعہ جاپان پر امریکہ اور بھارت کا اثر غالب نظر آیا، کئی دفعہ جاپان کی جانب سے دی جانیوالی امداد میں پاکستانی بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی جانب سے لوٹ مار کی کوششوں نے جاپانی حکومت کو امداد روکنے پر مجبور کیا تو کبھی پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات جاپان کو پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری اور کراچی سرکلر ریلوے جیسے قومی مفاد کے منصوبے کے لئے قرض کی فراہمی سے روکتے رہے ،غرض دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی دفعہ سردی گرمی اور سرد مہری برقرار ہی نظرآتی رہی، لیکن سفارتی سطح پر ہمیشہ ہی دونوں ممالک کے تعلقات کو مثالی کہا جاتارہا ہے، مثبت بات یہ ہے کہ آج بھی جاپان کی جانب سے پاکستان کو خاموشی کے ساتھ بھاری معاشی امداد کی فراہمی جاری ہے، جاپان کی جانب سے پاکستانی غریب عوام کے لئے اسپتال قائم کیے جارہے ہیں، اندرون سندھ میں لڑکیوں کے لئےاسکول تعمیر کیے جارہے ہیں، سڑکوں کی تعمیر میں پاکستان کی مدد کی جارہی ہے، بجلی کی فراہمی کے منصوبوں کے لئے امداد دی جارہی ہے اور یہ امداد امریکہ والی امداد نہیں ہے جس کا اعلان اربوں ڈالر میں کیا جاتا ہے جبکہ ملتے لاکھوں بھی نہیں ہیں جاپانی امدادانسانی بنیادوں پر فراہم کی جاتی ہے اور اعلان کی جانیوالی پوری امداد کچھ عرصے بعد پاکستانی سرزمین پر کبھی اسکولوں ،کبھی اسپتالوں او رکبھی سڑکوں کی صورت میں نظر بھی آتی ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک میں اہم عالمی امور پر اختلافات بھی نظر آتے ہیں، جن میں سب سے اہم جاپان کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کے لئے کی جانیوالی کوششوں میں جاپان کو پاکستان کی حمایت حاصل نہ ہوناہے،اسی طرح پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام پر جاپان کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا رہا اور آج بھی جاپان بھارت کے ساتھ سول ایٹمی تعاون کے بہت بڑے منصوبے پر کام کررہا ہے لیکن اسی طرح کے معاہدے کے لئے وہ پاکستان کے ساتھ تیار نہیں ہے۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جاپان نے پاکستان کا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے جبکہ خود جاپان کے کئی علاقوں پر روس اور چین سمیت کئی ممالک کے ساتھ تنازعات موجود ہیں لیکن ان عالمی امور میں مختلف موقف اپنانے کے باوجود پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں وہ سرد مہری نہیں رہی جس کے سبب تعلقات میں بگاڑ آتا ہے آج بھی دونوں ممالک اچھے تعلقات کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ،پاکستان میں جاپانی زبان سیکھنے کا رواج پیدا ہورہا ہے ،پاکستان سے جاپان جانے والے سیا حوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ جاپان کی جانب سے پاکستان کے کئی علاقوں کے لئے ٹریول ایڈوائزری کے باوجود جاپانی سیاح پاکستان آرہے ہیں ،پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کے بعد کئی جاپانی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے ہیں اس حوالے سے پاک جاپان بزنس فورم اور پاک جاپان بزنس کونسل کا رول اہم ہوسکتا ہے جبکہ حکومت پاکستان کو بھی سرمایہ کارپالیسیوں میں سہولت فراہم کرنا ہوگی ،صرف باتوں سے تعلقات مثالی نہیں ہوسکتے ہیں دونوں ممالک کو مثالی تعلقات کے لئے مثالی اقدامات کرنا ہوں گے۔



.
تازہ ترین