• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی نے عالمی اقتصادی بحران اور کسادی بازار پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارکسٹ لینن ازم کا دور پھر سے آگیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کی کیمونسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدہ دار وڈیلا پیانا نے لکھا ہے کہ موجود ہ عالمی اقتصادی بحران کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے اور اب دنیا کو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہمارا وقت دوبارہ آپہنچا ہے اس وقت دنیا بھر کے عوام ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکی کمیونسٹ پہلی بار ’’دفاعی پوزیشن‘‘ سے باہر آگئے ہیں۔ ہم اپنی دنیا تخلیق کرنا چاہتے ہیں یہ ایسی دنیا ہوگی جو چند افراد کے فائدے اور خوشی کے بجائے معاشرے کے تمام طبقات کے لئے آسودگی اور راحتیں لے کر آئے گی انہوں نے کہا ہے کہ نوجوانوں کے اہم مسائل مثلاً امن، تعلیم، صحت اور روزگار ہیں اور ہم یہ سب فراہم کرسکتے ہیں۔
امریکہ ہی کے ایک اہم ادارے راسموس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اقتصادی بحران کا شکار امریکی قوم اور سرمایہ دارانہ نظام کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کے ساتھ ’’سوشلزم‘‘ جس کو کچھ عرصہ قبل امریکہ میں ممنوع لفظ سمجھاجاتا تھا کا استعمال بھی بڑھتا جارہا ہے۔ یکم مئی کے موقع پر شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق اقتصادی بحران کے بعد سرمایہ داری نظام کو سوشلزم سے بہتر سمجھنے والے امریکی شہریوں کی شرح 50فیصد سے کچھ ہی زائد رہ گئی ہے۔ 40سال سے زیادہ امریکی شہریوں نے یوم مئی پر ایک سروے میں مزدور دشمن کساد بازاری اور سرمایہ دارانہ نظام کو بدترین نظام قرار دیا ہے تاہم 52فیصد افراد اب بھی سرمایہ داری کے حامی ہیں۔ 27فیصد نے کسی طرح کا اظہار کرنے سے معذرت کرلی۔ سروے کے مطابق صرف ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 32فیصد افراد سوشلزم کے حامی ہیں۔
ادھر میرے ملک ہالینڈمیں ایک سروے کے مطابق اس سال یوم مئی (مارچ تا اپریل) کے موقع پر کارل مارکس کے شہرہ آفاق کتاب دس کیپٹال (جسے انگریزی میں داس کیپٹل کہتے ہیں) کی 900کاپیاں فروخت کیں۔ یہ یوم مئی کیا ہے اپنے حساب سے عرض کرتا ہوں 1886میں امریکہ کے مزدوروں نے اپنے لہو سے یوم مئی کی تحریک کا آغاز کیا تھا وہ ایک نئے ولولے کے ساتھ ایک نئے سفر پر نکلے تھے۔ ان دنوں ان کے لئے اس نوع کے مطالبات بھی نہایت عجیب اور انوکھے قرار دئیے جاتے تھے مثلاً مزدوروں سے جانوروں کی مانند بلکہ ان سے بھی بدتر طریق و حالات میں کام نہ لیا جائے۔
انہیں اتنی اجرت دی جائے کہ وہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔
انہیں بھی تنظیم اور احتجاج و جدوجہد کا حق دیا جائے۔
بنیادی طورپر یوم مئی کی تحریک کے یہی تین مطالبات تھے۔ یعنی (1)اوقات کار میں کمی (2)اجرتوں میں اضافہ (3)تنظیم کا حق۔ یہ ایک ایسی تحریک ہےجو محنت کشوں کے خون میں ڈوب کر ابھری ہے اور برحق و انصاف کی جدوجہد کرنے والوں کو گولیوں کی بوچھاڑ، بموں کے دھماکوں اور پھانسی کے تختوں کی یاد دلاتی ہے۔ یوم مئی ایک تہوار بھی ہے مگر یہ غم کا تہوار اور نہ خوشی کا بلکہ یہ تجدید عزم و عہد کا دن ہے رنگ و نسل سے بالا تر دین و دھرم سے اونچا۔ جب مزدوروں نے اس سرخ لہو میں ڈوبے ہوئے پرچم لہرائے تو یوم مئی کا پیغام تمام جغرافیائی حدود کو توڑ کر ساری دنیا میں گونج اٹھا اور بین الاقوامی انسانی برادری کے رشتے استوار کرگیا اور دنیا کے کونے کونے میں مزدور پکار اٹھے امریکی مزدوروں کا لہو ہمارا لہو ہے اور دنیا بھر کے محنت کشوں ایک ہوجائو۔ یوم مئی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے دلوں میں خوف اور دنیا بھر کے مزدوروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ مستقبل ہمارا ہے چنانچہ اس روز لندن سے لاہور تک اور واشنگٹن سے لے کر مراکش تک ساری دنیا کے مزدور یوم مئی کے شہدا کی یاد مناتے اور ان کے لہو کی حرارت اور مجاہدانہ جدوجہد کے تذکروں سے اپنے سینوں کو گرماتے ہیں اس میں مشرق و مغرب یا نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر کی کوئی قید نہیں۔ یوم مئی کی تند و تیز طبقاتی روشنی کو دھندلانے اور اس کی کرنوں کو پکڑنے جکڑنے کی کوششیں بہت ہوتی رہی ہیں سرمایہ داروں میں قبضے میں ابلاغ عامہ کے جو بے پناہ اور لا محدود وسائل اور ذرائع ہوتے ہیں وہ سب کے سب نہایت بے حیائی اور ڈھٹائی سے خود اپنے بیان کردہ اخلاقی اقدار کو پائوں تلے روندتےہوئے یوم مئی کے بارے میں تعصب، جہالت، تنگ نظری اور عوام دشمنی کے مکروہ اور گھنائونے پروپیگنڈہ کے لئے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔ یوم مئی یقین کی شمع فروزاں کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ دنیا کے محنت کشوں کو آج جو حقوق حاصل ہیں وہ کل خواب و خیال تھے اور جو کل حاصل ہوں گے وہ آج خواب و خیال ہیں۔ انیسویں صدی کا صنعتی معاشرہ جو ظالمانہ جاگیرداری سماج کی کوکھ سے پیدا ہوا مزدوروں کے مطالبات کو خاطر میں نہ لایا اس کے برعکس اس نے مزدوروں کی آواز کچل دینے کی کوشش کی لیکن اس کی تمام کوششیں بے سود رہیں۔ صنعتی سرمایہ داروں نے زیادہ سے زیادہ منافع اور کم سے کم خرچ کے لئے ابتدا سے ہی محنت کش انسانوں کا استحصال شروع کردیا تھا قلیل ترین معاوضے پر مزدور بیس بیس گھنٹے روزانہ کام کرنے پر مجبور تھے سہولتوں کا تصور تک ناپید تھا۔ فیکٹریاں جانور کے باڑوں کی مانند تھیں۔ جن میں مزدوروں کو سورج نکلنے سے بہت پہلے دھکیل دیا جاتا تھا اور رات گئے نکالا جاتا تھا دروازے باہر سے مفقل ہوتے چنانچہ آتشزدگی کی بہت سی وارداتوں میں ان گنت مزدور اندر ہی جل کر راکھ ہو جاتے۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں اوقات کار کم کرکے دس گھنٹے مقرر کرنے کی تحریک امریکہ میں شدت اختیار کرگئی چنانچہ اس مطالبے کی حمایت میں 1827میں فلاڈلفیا کے مزدوروں نے اور 1832میں بیکریوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے ہڑتال کی، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے محنت کشوں کے ترجمان کنگ سینئر ایڈوکیٹ شکاگو نے لکھا ’’مزدور سالہا سال سے غلاموں سے بدتر مصائب برداشت کر رہے ہیں انہیں چوبیس گھنٹے میں 18سے بیس گھنٹے تک شدید محنت و مشقت کرنا پڑتی ہے‘‘ اس تحریک کے نتیجے میں بالآخر ایک قانون منظور ہوا جس کے تحت سرکاری اداروں میں ملازمین نے اوقات کار دس گھنٹے روزانہ کام کا مطالبہ شروع کیا۔ مزدوروں میں یہ نعرہ مقبول ہوا آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام۔ 1856میں آسٹریلیا کے مزدور اس مطالبے کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ 7اکتوبر 1884میں امریکی فیڈریشن آف لیبر کے چوتھے کنونشن میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں تمام مزدور انجمنوں سے کہا گیا کہ وہ یکم مئی 1886میں آٹھ گھنٹے کام کا نعرہ دیدیں اور یوں اس نئی تاریخ کو نئے اوقات کار کی داغ بیل ڈالی گئی۔
اب آخر یہ مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں بنیادی حقوق ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ سے معطل ہیں انجمن سازی کے حقوق کو سلب کرنے کے لئے آرڈینس 2002اور بینکنگ کمپنیز آرڈینس دفعہ 27-Bاور صدارتی آرڈینس 2000لگایا گیا ہے جسے منسوخ کیا جانا ضروری ہے۔



.
تازہ ترین