• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیارِ غیر میں اپنے وطن کی یادیں بہت ستاتی ہیں۔ اپنی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو مجبور کرتی رہتی ہے کہ آئو اور اپنے وطن کی فضاؤں میں سُکھ کا سانس لے لو ، بس وہی سانس لینے ہم بھی اسپین سے پاکستان پہنچ گئے، دوست احباب ہمیں عزت و احترام سے لبریز ’’القابات‘‘ سے نوازتے تھے جیسے ’’سر‘‘ جناب اور کبھی چوہدری ’’شوہدری‘‘ بھی پکار لیتے تھے اُس کی وجہ ہمارا یورپ سے درآمد شدہ ہونا تھا اور ویسے بھی پاکستان کے عوام اور سیاسی نمائندے مہمان نوازی کی آخری حدوں کو ’’چُھونے‘‘ سے گریز نہیں کرتے ہیں، چوہدری سرور، شوکت عزیز، معین قریشی اور ایسی کئی دوسری کئی شخصیات دوسرے ممالک سے پاکستان آکر حکومتی عہدوں سمیت ایسے ہی القابات سے نوازی جا چکی ہیں۔ اِس بار پاکستان میں ہمارے احباب نے ہمیں ایک نیا لقب دے دیا ’’کھوجی‘‘ ہم نے یہ لقب پہلی بار سُنا تھا، سوچ میں پڑ گئے کہ احباب نے میرے لئے اِس نئے لقب کا چنائو کیوں کیا ہے۔ بڑی ضد کرنے پر ایک دوست نے بتایا کہ ہمیں ’’کھوجی‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہم جب سے پاکستان آئے ہیں کچھ نہ کچھ ڈھونڈتے دکھائی دیتے ہیں۔ گھر آکر یہی سوال اپنی بیگم کے سامنے رکھا کہ ایسا کیوں کہا جا رہا ہے تو وہ بولی سیدھی سی بات ہے کہ کسی چیز کا کھوج لگانے والے کو ہی کھوجی کہتے ہیں اور آپ یورپ سے آکر پاکستان میں کبھی بجلی، پٹرول، چینی اور کبھی آٹا اور گیس کی کھوج لگاتے رہتے ہیں کہ یہ چیزیں کہاں سے اور کب ملیں گی؟ آپ کی اسی حرکت کو دیکھ کر دوست احباب جناب کو کھوجی کا لقب دے رہے ہیں۔ ہم نے سینہ تان کر اپنی بیگم کو کہا کہ جب تک اپنے بچوں کے لئے یہ سب کچھ تلاش نہیں کر لیتے تب تک اسپین وآپس نہیں جائیں گے۔ اگلے دن ہم چینی، آٹا، گیس اور بجلی تلاش مہم کے لئے نکلنے وقت بیگم سے بولے کہ اگر ہم ’’تلاش مہم‘‘ پر ہوں اور بجلی آجائے تو ہمیں فوراً فون کرنا تاکہ واپس آکر ’’غسل‘‘ کر لیں۔ ہم شام تک چیلنج کی گئی چیزوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے لیکن ہمیں بیگم کا فون نہ آیا۔ تھکے ہارے گھر پہنچے تو بیگم سے غصے میں پوچھا کہ ہمیں فون کیوں نہیں کیا؟ وہ بولی سرتاج جتنی دیر کے لئے بجلی آئی تھی اُتنی دیر میں فون چارج نہیں ہوتا، آپ کو فون کیسے کرتی؟ بیگم کی بات بھی ٹھیک تھی، بجلی نہ آنے کی وجہ سے پانی والی موٹر نہیں چل رہی اور پانی گرم کرنے کے لئے گیس نہیں ہے، ایسے حالات میں نہائے بغیر ہمیں تیسرا دن تھا۔ ہم اسپین سے یہ سوچ کر پاکستان آئے تھے کہ اب تک تو وزیراعلیٰ پنجاب اپنے وعدے کے مطابق بجلی کا بحران ختم کر چکے ہوں گے، وزیراعظم پاکستان اپنے بیان کے مطابق کہ ’’ہمارے پاس ذہین لوگوں کی ٹیم موجود ہے‘‘ اور وہ ٹیم بجلی کا بحران ختم کر چکی ہوگی، سڑکوں پر کرپٹ لوگوں کو گھسیٹا جا چکا ہو گا، گریبانوں کو پکڑ کر ایک ایک پائی وصول ہو چکی ہوگی۔ ایسا نہ ہونے پر نام تبدیل کرنے کے وعدے پورے ہو چکے ہوں گے لیکن ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ حکومتی وعدہ خلافیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے گھر کے قریب ’’جھال خانوانہ‘‘ نہر پر جاکر ٹھنڈے پانی سے ہی نہا لیتے ہیں۔ منہ اندھیرے اُٹھے، اپنا ’’لنگوٹ‘‘ لیا اور سخت سردی کے باوجود نہر پر پہنچ گئے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گھپ اندھیرا اور سردی کی وجہ سے ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہم نے کانپتے جسم کے ساتھ پہلے ہمت پیدا کی اور پھر نہر کے کنارے سے دس پندرہ قدم پیچھے ہٹ کر آنکھیں بند کیں اور دوڑ کر نہر میں چھلانگ لگا دی۔ نہر میں گرے تو جسم کے ساتھ صرف ریت محسوس ہوئی، سوچا کہ شاید سردی سے جسم ’’ سُن‘‘ ہو گیا ہے اِس لئے پانی کی ٹھنڈک محسوس نہیں ہو رہی۔ تھوڑی دیر بعد خالی نہر میں چھلانگ لگانے سے جو چوٹیں لگی تھیں اُن میں درد ہونا شروع ہو گیا۔ شرمندہ شرمندہ نہر سے باہر نکلے اور کپڑے پہن کر واپس گھر کی جانب چل پڑے۔ دروازے سے ہی ’’ہائے ہائے‘‘ کا راگ الاپتے جب گھر کے اندر داخل ہوئے تو بیگم گھبرا گئی، پوچھنے پر سارا ماجرا سُنا دیا، بیگم نے چوٹوں پر لگانے والی کریم کی تلاش اندھیرے میں شروع کی تو ہم بولے کہ اتنا مہنگا ’’یو پی ایس‘‘ لگوایا ہے اُس سے ایک بلب ہی جلا لو تاکہ مرہم آسانی سے مل جائے۔ بیگم بولی کہ بجلی آئے گی تو یو پی ایس کا کچھ بنے گا۔ خیر موم بتی جلا کر کریم تلاش کر لی گئی، درد پر لگائی تو کچھ سکون ملا۔ ہم بولے کہ دیسی ٹوٹکا بھی کر لیں پھر کہا کہ آدھی اینٹ گرم کر لیں تاکہ درد والی جگہ پر ’’ٹکور‘‘ کی جا سکے۔ بیگم نے جواب دیا کہ یہاں صرف بجلی نہیں بلکہ گیس کی بھی لوڈشیڈنگ ہے اور اِس موم بتی سے اینٹ گرم نہیں ہو سکتی۔ بیگم نے سوال کیا کہ جب آپ نہر پر نہانے گئے تو وہاں آپ کو پانی نظر نہیں آیا تھا کہ آپ نے خالی نہر میں چھلانگ لگا دی۔ ہم نے جواب دیا کہ اندھیرا تھا اور سردی کی وجہ سے ہم نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ بیگم بولی آپ بھی بادشاہ بندے ہیں جناب، دریاؤں کا پانی ہر سال انڈیا روک لیتا ہے اور نہروں میں پانی دریاؤں سے آتا ہے جب حکومت نے دریاؤں کے پانیوں کے لئے ڈیم بنانے اور پانی کی مقدار پورا کرنے کے لئے کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی تو نہروں میں پانی کہاں سے آئے گا؟ انہی سوالوں اور جوابوں میں دن چڑھ گیا اور بچے اسکول جانے کے لئے جاگ گئے، دیکھا تو اُن کا یونیفارم استری شدہ نہیں تھا، غسل کے لئے پانی نہیں تھا، ہمیں اپنی چوٹیں بھول گئیں اور ہم سوچنے لگ گئے کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل کیوں تاریک کر رہے ہیں؟ یہ بچے ہمارا کل ہیں مگر ہم انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ہر ملک میں بچوں کے مستقبل کو اُن کے ماں باپ سے زیادہ وہاں کی حکومت محفوظ بناتی ہے جبکہ پاکستان کی اب تک کی تمام حکومتیں بچوں کے مستقبل کو تباہ و برباد کرنے پر ’’تُلی‘‘ ہوئی ہیں ہمارا ملک دنیا کا واحدخطہ ہے جہاں پیدا ہونے والے بچے اس جہان میں آنے سے پہلے ہی مقروض ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کی سب سے بڑی خواہش اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیر میں محنت مزدوری کرنے کی ہے، تاکہ وہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا مستقبل بہتر بنا سکیں، ایسے مواقع پاکستان میں کیوں نہیں ہیں؟ ہم تارکین وطن پاکستانی اپنے ہم وطنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں ایسے حکومتی نمائندوں کو منتخب کریں جو ہمیں واپس پاکستان آنے پر مجبور کر دیں۔



.
تازہ ترین