• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر تھوڑے عرصے کے بعد پاکستان میں کچھ ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ اب کیا ہو گا، نظام بچ پائے گا بھی یا نہیں، جمہوریت کا کیا بنے گا، کہیں فوج ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ تو نہیں کر لے گی وغیرہ وغیرہ۔ ان خدشات کی ایک وجہ تو پاکستان کی اپنی تاریخ ہے جس میں فوج نے ایک طرف بار بار مارشل لاء لگائے تو دوسری طرف سول حکومتوں کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان حالات میں فوج پر تمام ذمہ داری ڈالنا اگرچہ آسان ہو جاتا ہے لیکن انصاف کی بات کی جائے تو ان حالات کی ذمہ داری ہمارے سیاست دانوں، پارلیمنٹ، جمہوری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں پر بھی آتی ہے۔ گزشتہ نو سال سے اس ملک میں جمہوری نظام چل رہا ہے۔ اس دوران فوج کی طرف سے مداخلت کے الزامات لگتے رہے لیکن سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا سول حکومتوں نے عوام کی فلاح وبہود کے لیے وہ کچھ کیا کہ عام گلی محلوں میں رہنے والے جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ کے درمیان کوئی فرق محسوس کر سکیں۔ گزشتہ پی پی پی کی حکومت نے نااہل حکمرانی اور کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیے لیکن ہم خوشی مناتے رہے کہ ایک جمہوری حکومت نے اپنا دور مکمل کیا۔ 2013 کے الیکشن میں پی پی پی کو عوام نے رد کیا اور ن لیگ کو اس امید سے ووٹ دے کر حکمرانی کا حق دیا کہ کرپشن کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں گی، بہترین حکمرانی کا یہاں رواج ہو گا اور لوگوں کو سستا انصاف ملے گا، میرٹ کی حکمرانی ہو گی اور عوامی مسائل حل کئے جائیں گے۔ ن لیگ کی حکومت اپنے چار سال مکمل کر رہی ہے لیکن افسوس کہ ابھی تک نہ تو کرپشن کرنے والوں کو پکڑا گیا اور نہ ہی ایسی حکمرانی نظر آئی جس نے لوگوںکی زندگیوں کو تبدیل کر دیا ہو۔ عام لوگوں کو نہ انصاف ملتا ہے اور نہ ہی میرٹ پر نوکریاں۔ کسی حکومتی ادارے میں چلے جائیں، بغیر سفارش اور رشوت کے جائز سے جائز کام نہیں ہوتا۔ کسی دور دراز علاقہ کو چھوڑیں اسلام آباد میں وفاق کے کسی محکمہ میں چلے جائیں رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ لوگوں کے لیے نہ علاج معالجے کی سہولتوں میں کوئی بہتری ہے، نہ ہی پولیس اور انصاف کا نظام مظلوم کی دادرسی کررہا ہے بلکہ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ سارا نظام ظالم، لٹیروں، کرپٹ اورطاقتور کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب حالات ایسے ہوں تو پھر عوام کو جمہوریت سے کیا دلچسپی۔ جمہوری حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کو اپنی خود احتسابی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ڈر کہ فوج کہیں آ نہ جائے، سسٹم ڈی ریل نہ ہوجائے، جمہوریت کیا بچ پائے گی، اگر نکالنا ہے تو آئین کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سول حکومتوں، پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیوں کو کام کرنا ہوگا۔ رشوت ستانی اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ نظام ایسا بنائیں کہ لوگ جب سول اداروں ، پولیس اور دوسرے حکومتی محکموںمیں اپنے کام کے لیے جائیں تو انہیں اچھا ماحول ملے، انہیں عزت کے ساتھ سنا جائے اور ان کے جائز کام بغیر کسی حیلے بہانے کے فوری ہوں۔ اگر جمہوریت کو بچانا ہے اور جمہوریت کے لیے عوام کے دل جیتنے ہیں تو لوگوں کے لیے جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں، تعلیم اور صحت کی بہترین سہولتیں ہر پاکستانی کے لیے مہیا کریں، میرٹ اور قانون کی حکمرانی کو رواج دیں۔ آئین، قانون اور کتابی باتیں ٹی وی ٹاک شوز میں تو کی جا سکتی ہیں اور اصولوں کی بنیاد پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی ڈکٹیٹرشپ سے بہتر ہوتی ہے لیکن لوگ یہ نہیں مانتے۔ وہ اپنی زندگیوں میں بہتر تبدیلی کے لیے جمہوریت کو ڈکٹیٹر شپ سے مختلف محسوس کرنا چاہتے ہیں جو یہاں ہو نہیں رہا۔ اسی لیے جب کسی جمہوری حکومت سے لوگ تنگ آجاتے ہیں تو فوج کو یاد کرنے لگتے ہیں حالاں کہ مارشل لاء کا نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ بچے کھچے اداروں کو بھی تباہ کر دیا جاتا ہے۔ فوج کو مداخلت سے روکنا ہے تو پھر جمہوریت کے حسن کا مزہ عوام کو چکھانا ہو گا۔

.
تازہ ترین