• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنگلہ دیشی دوستوں کا اصرار ہے کہ میں 2013ءمیں اپنے والد پروفیسر وارث میر کو شیخ حسینہ واجد کی طرف سے دیئے جانے والے ایوارڈ کو واپس کرنے کی وجوہات تفصیل سے بتائوں۔ بنگلہ دیش کے علاوہ پاکستانی اخبارات میں بھی اس معاملے پر تبصرے کئے جارہے ہیں۔ ایک جائز سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ایوارڈ میرے والد کو دیا تھا وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو میں ان کا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیسے کرسکتا ہوں؟ اس اہم سوال کا جواب دینے کیلئے مجھے ماضی میں جانا پڑے گا۔ یہ 2007ءکا موسم سرما تھا۔ پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے آئین معطل کردیا تھا اور میرے سمیت کچھ دیگر ٹی وی اینکرز پر پابندی لگا رکھی تھی۔ وکلاء اور صحافی مل کر فوجی صدر کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔ ہم روزانہ شام کو پریس کلب کے باہر دھرنا دیتے جس میں نامور شاعر احمد فراز صاحب بھی باقاعدگی سے آتے تھے۔ اس دھرنے میں بہت سی تقاریر ہوتی تھیں جن میں بار بار ذکر آتا تھا کہ 1971ءمیں پاکستان اس لئے ٹوٹا کیونکہ ایک فوجی ڈکٹیٹر نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کردیا۔ ایک دن سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی دھرنے میں آکر ہمارے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اگلے دن زرداری ہائوس اسلام آباد میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور عمران خان 1971ءمیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علم تھے اوربنگلہ دیش بنانے کے سخت مخالف تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہاں تو بہت ظلم ہوا تھا۔ بے نظیر صاحبہ نے کہا کہ پاکستان سے علیحدہ ہو کر بھی بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام نہیں آیا اور اس کی وجہ فوج کی سیاست میں مداخلت ہے۔ پاکستان اوربنگلہ دیش کو اپنا تلخ ماضی بھلا کر نئے رشتے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ دن بعد ہمارے دھرنے میں احمد فراز صاحب نے ڈھاکہ پر اپنی مشہور نظم سنائی تو وہاں تجویز پیش کی گئی کہ ہم صحافیوں اور وکلاء کو 1971ء کے واقعات پر بنگلہ دیش کے عوام سے معافی مانگنی چاہئے۔ اس تجویز کی تائید کرنے والوں میں ریٹائرڈ بیوروکریٹ روئیداد خان بہت پرجوش تھے جو 1971ءمیں مشرقی پاکستان کے سیکرٹری انفارمیشن تھے۔ اگلے دن ایک بینر بنایا گیا جس پر لکھا گیا تھا کہ پاکستانی صحافی اور وکلاء بنگلہ دیش کے عوام سے 1971ءکے واقعات پر معافی مانگتے ہیں۔ یہ تصویر اخبارات میں شائع ہوئی تومیرے خلاف طوفان برپا ہو گیا کیونکہ تصویر میں بینر میں نے اٹھا رکھا تھا۔ مشرف حکومت پہلے ہی ناراض تھی اب انہوں نے مجھ پر غداری کا الزام بھی لگا دیا۔ مجھ پر دبائوڈالا گیا کہ میں اس دھرنے میں جانا بند کروں لیکن میں نے انکار کردیا۔ کچھ عرصے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا اور پھر مشرف حکومت بھی رخصت ہوگئی۔
26مارچ 2010ءکو میں نے بنگلہ دیش کےایک معروف انگریزی اخبار ڈیلی اسٹار اور بنگالی زبان کے اخبار پروتھم ایلو میں ایک کالم لکھا اور بتایا کہ میں نے بنگلہ دیش کے لوگوں سے معافی کیوں مانگی تھی؟ اس کالم میں اپنے والد پروفیسر وارث میر کے دورہ ڈھاکہ کا ذکر کیا جو انہوں نے پاکستان ٹوٹنے سے چند ماہ قبل اکتوبر 1971ءمیں کیا تھا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے ایک وفد کو لیکر ڈھاکہ گئے اور انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پل بننے کی کوشش کی۔ جاوید ہاشمی بھی اس وفد میں شامل تھے اور انہوں نے اپنی کتاب ’’ہاں! میں باغی ہوں‘‘ میں اس دورے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ میرے والد کو 1971ءکے واقعات پر بہت افسوس تھا۔ وہ ڈھاکہ سے واپس آئے تو بہت غمگین تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہمیں بنگالیوں سے معافی مانگنی چاہئے کیونکہ انہوں نے تحریک پاکستان میں اہم کردارادا کیا۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ اس معافی سے ہمارا بنگلہ دیش کے لوگوں کے ساتھ نیا رشتہ بنے گا۔ یہ کالم شائع ہونے کے کچھ عرصہ بعد مجھ سے بنگلہ دیشی حکومت نے رابطہ کیا اور میرے والد کی وہ تحریریں مانگیں جن میں انہوں نے 1971ءکے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ میں نے یہ تحریریں بنگلہ دیشی حکومت کو دیدیں۔ پھر بنگلہ دیشی حکومت کے نمائندے شہریار کبیر پاکستان آئے اور جاوید ہاشمی سے ملاقات کی خواہش کی۔ میں نے یہ ملاقات بھی کرا دی۔ ہاشمی صاحب نے شہریار کبیر پر واضح کیا کہ وارث میر سمیت ہم سب فوجی آپریشن کے مخالف تھے اور اقتدار شیخ مجیب کو منتقل کرنے کا مطالبہ کررہے تھے لیکن ہم پاکستان توڑنے کے حامی نہ تھے۔ کچھ عرصے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے ان پاکستانیوں کو ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے 1971ءکے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ یہ ایوارڈ 22مارچ 2013ءکو ڈھاکہ میں دیئے جانے تھے جبکہ مجھے 23مارچ 2013ءکواسلام آباد میں صدر پاکستان سے اپنا ہلال امتیاز لینا تھا۔ میں نے بنگلہ دیش حکومت سے معذرت کی اور کہا کہ میرا بھائی اپنے والد کا ایوارڈ وصول کرلے گا۔ بنگلہ دیشی حکومت کا اصرار تھا کہ نہیں ایوارڈ آپ وصول کریں تاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتر ی آئے اس اصرار پر میں یہ ایوارڈ وصول کرنے چلا گیا۔ خیال تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی لیکن یہ خواب حقیقت نہ بن سکا۔ جولائی 2013ءمیں جماعت اسلامی کے 90سالہ بزرگ غلام اعظم کو عمر قید کی سزا دی گئی تو ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سزا پر اعتراض کیا۔ میں نے اپنے ایک کالم میں یہ معاملہ اٹھایا تو بنگلہ دیشی حکومت کا پیغام آیا کہ ہم نے آپ کو ایوارڈ دیا تھا آپ اس معاملے پر نہ بولیں۔
پھر ڈیلی اسٹار کے ایڈیٹر محفوظ انعام اور پروتھم ایلو کے ایڈیٹر مطیع الرحمان پر بغاوت کے مقدمات بنا دیئے گئے۔ میں نے ان مقدمات کے خلاف آواز اٹھائی تو ایک بنگلہ دیشی سفارتکار نے کہا کہ ہم نے آپ کو ایوارڈ دیا تھا آپ کو تو خاموش رہنا چاہئے۔ پچھلے دنوں بنگلہ دیش نے اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کیا تو ہماری قومی اسمبلی کے ایک رکن نے مجھے کہا کہ انہوں نے کافی عرصہ سے ایک قرارداد تیار کر رکھی تھی کہ پاکستانی پارلیمنٹ 1971ءکے واقعات پر بنگلہ دیش کے عوام سے معافی مانگتی ہے۔ اس قرارداد پر وہ مختلف جماعتوں کے 13ارکان کے دستخط کرا چکے تھے اور مناسب موقع پر اسے اسمبلی میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس رکن اسمبلی نے کہا کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے نریندر مودی کی غلامی اختیار کرلی ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی لہٰذا جب تک حسینہ واجد وزیراعظم ہے میں یہ قرارداد اسمبلی میں نہیں لائوں گا۔ اس دوران دبئی میں بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ایک عہدیدار سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں آتے؟ جواب آیا کہ بھارت ناراض ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا بنگلہ دیش نے بھارت کی غلامی اختیار کرلی ہے؟ بنگلہ دیشی دوست ناراض ہوگیا۔ کہنے لگا ہم نے آپ کو ایوارڈ دیا تھا آپ ہمیں طعنے مارتے ہیں میں نے عرض کیا آپ نے یہ ایوارڈ مجھے نہیں میرے والد کو دیا تھا لیکن اگر آپ اس ایوارڈ کے ذریعے میرا منہ بند کرنا چاہتے ہیں تو پھر اسے واپس لے لیں۔ واضح رہے کہ یہ ایوارڈ حسینہ واجد کو واپس کیاگیا ہے۔ بنگلہ دیش سے میری محبت آج بھی برقرار ہے۔ یہ محبت نہ کسی ایوارڈ کی غلام بن سکتی ہے اور نہ کسی ایوارڈ کی محتاج ہے۔

.
تازہ ترین