• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سست اور کاہل لوگوں نے اپنی ایسوسی ایشن کے صدرکو کٹہرے میں لاکھڑا کیا اس پر الزام تھا کہ اس کو ایسوسی ایشن کے کچھ ممبران نے اس وقت رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جب وہ گاڑی کو 60میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا رہا تھا ، سست اور کاہل لوگوں کی ایسوسی ایشن کے کارکن اپنی طرف سے چلا چلا کر اپنے صدر کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے لیکن دیکھنے والوں کو صاف معلوم ہورہا تھا کہ ایک نعرہ لگانے اور اس کا جواب آنے میں اتنا وقت صرف ہوجاتا تھا کہ اتنی دیرمیں آدھا جلسہ کرلیا جاتا لیکن سست اور کاہل لوگوں کا یہی منشور اور یہی ایجنڈا تھا کہ کسی بھی موقع پر سستی اور کاہلی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا اور اسی خلاف ورزی پر صدر کو آج کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا اس نے اپنے منشور اپنے ایجنڈے اور اپنی سستی کی اہلیت کے خلاف 60میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی کیوں چلائی ۔دو گھنٹوں میں دو نعروں کی صورت میں سست لوگوں کی اس تنظیم کی شدید نعرے بازی میں صدر اپنی موندھی ہوئی آنکھوں کو نیم وا کرتے ہوئے کہاکہ میرے غیرت مند سست لوگو آپ نے میری سستی اور کاہلی کو انڈر ایسٹیمیٹ کیا ہے ، مجھے اپنی تنظیم کا صدر بنا کر آپ نے جو مینڈیٹ دیا ہے میں آج بھی اس پر سو فیصد پورا اترتا ہوں صدر ہر فقرے کے بعد اونگھنے لگتا اور اپنی تنظیم کے لوگوں سے درخواست کرنے لگتا کہ باقی جواب اگلے دو تین روز میں لے لیں لیکن سست متوالوں، پیاروں اور جیالوں کا غصہ اسے مجبور کردیتا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ آج بھی پہلے کی طرح سست اور کاہل ہے ،مجبوراً سست اور کاہل لوگوں کی تنظیم کے سر براہ نے اونگھتے ہوئے جواب دیا کہ جو معزز کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے 60میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا کر اپنے مینڈیٹ کی تو ہین اور مینڈیٹ کے خلاف تیزی دکھانے کی کوشش کی ہے تو سن لو جب میں نے گاڑی اسٹارٹ کرکے اس کے ایکسیلیٹر پر پائوں رکھا تو گاڑی ایک جھٹکے سے دوڑنے لگی یہ بات درست ہے کہ گاڑی 60میل فی گھنٹہ کی سپیڈ سے دوڑنے لگی لیکن میں نے اپنے سست اور کا ہلی کے سنہر ے اصو لو ں کے مطابق سوچتے ہو ئے فیصلہ کیاکہ اب کون ایکسیلیٹر سے پاؤں ہٹائے اس لئے جان دیو(جانے دو) تنظیم کے صدر کی یہ بات کہنا تھی کہ تنظیم کے کارکن اس کے حق میں نعرے لگانے لگے اور اپنا الزام واپس لے لیا۔
ہمارے دوست وفاقی وزیر سعد رفیق نے گزشتہ روز راولپنڈی سے پاکستان ایکسپریس ٹرین کا افتتاح کیا جو راولپنڈی سے کراچی براستہ فیصل آباد 27مختلف شہروں اور علاقوں اور ریلوےا سٹیشنوں پرا سٹاپ کرے گی۔
اور اللہ نہ کرے یہ ٹرین سفر کے دوران کسی فنی خرابی کا شکار ہو، پٹڑی پر چلتے چلتے تنگ آکر پٹڑی سے اترنے کی کوشش کرے، پھاٹک پر کسی چنگ چی رکشہ سے ٹکرانے سے گریز کرے، ٹرین ڈرائیور دوران سفر ،حلوہ پوری، نان چنے یا سری پائے کی من پسند جگہ پر ٹرین نہ روک لے یا سمگلنگ کے سامان کوا سٹیشن سے پہلے اتارنے کی کوشش میں ٹرین کو تاخیر سے دو چار نہ کردیا تو یہ ٹرین راولپنڈی سے کراچی تک کاسفر تقریبا25گھنٹے میں طے کیا کرے گی۔
مجھے یہ معلوم نہیں کہ سعد رفیق واقعی ریلوے کی بحالی کیلئے محنت کرکے اسے بہتری کی طرف لے جارہے ہیں یاان کا پائوں ایکسلیٹر پر آگیا ہے کیونکہ اسی ریلوے کے ایک سابق بلکہ گزشتہ حکومت کے وفاقی وزیر نے ریلوے کے محکمے کو ٹھیک کرنے کی بجائے یہ کہہ دیا تھا کہ ریلوے کو بند کردینا چاہیے کیونکہ نہ یہ محکمہ ٹھیک ہوسکتا اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہے ، ریلوے وہ محکمہ ہے جسے اگر پاکستان کا امیر ترین محکمہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا اس کے اثاثہ جات ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے ہوئے ہیں، لیکن اس ادارے کو سست اور کاہل سربراہان نے برباد کیاہے کبھی سیاسی بھرتیا ںکرکے اور کبھی اس کے سونے جیسے اثاثہ جات کو کوڑیوں کے بھائو بیچ کر اور کبھی کمیشن اور کک بیکس کے ذریعے اس کو کھوکھلا کرکے اسے تباہی کے دھانے پر پہنچایا گیا ہے ویسے بھی حکو مت بجلی کی ڈیما نڈ کے مطا بق بجلی کی فر ا ہمی اولذکر تنظیم کے منشو ر کی طرح کر رہی ہے ایسے میںریلوے میں کام ایکسیلیٹر پر پا ئوں کی طرح لگ رہا ہے اسکی درست وضاحت وفا قی وزیر ہی کر سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین