• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر ملک اور ہر قوم کی اپنی تاریخ ہوتی ہے اور تاریخ سبق سکھاتی رہتی ہے لیکن ہم ان سے صرفِ نظر کرتے رہتے ہیں۔ ہر بار نئے تجربے اور نت نئے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ توقع ہوتی ہے کہ اس بار اس کا نتیجہ کچھ اور نکلے گا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ہر بارنتیجہ وہی نکلتا ہے۔ اس کے باوجود ہم تاریخ سے نہیں سیکھتے۔ میرا مطالعہ ہے کہ سیاست کے حمام میں سب ننگے یا ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ وہ بھی جو تاریخ کے شعور سے محروم ہوتے ہیں اور وہ بھی جو تاریخ کے گہرے شعور سے مالامال ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ اور میاں نوازشریف تو تاریخ کے سبق سے صرف ِ نظر کرنے کا الزام قبول کرسکتے ہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو تو تاریخ کے گہرے شعور سے بہرہ ور ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ بینظیر بھٹو مرحومہ اور میاں نوازشریف صرف اقتدار سے محروم اور جلاوطن ہوتے رہے۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ انہوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا تھا لیکن ذالفقار علی بھٹو تو نہ صرف فوج کے ہاتھوں معزول اور قید ہوئے بلکہ پھانسی بھی چڑھا دیئے گئے۔ جنرل فیض علی چشتی کا بحیثیت عینی گواہ یہ کہنا ہے کہ جس روز بھٹو نے رہائی کے بعد لاہور میں جلسہ عام کیا اور لوگوں کے ہجوم کے نشے میں جرنیلوں کو پھانسی چڑھانے کا اعلان کیا۔ اس روز سی ایم ایل اے جنرل ضیاء الحق مرحوم مری میں کور کمانڈر چشتی صاحب کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب کا لاہور سے جنرل ضیاء الحق کو فون بھی آیا اور اسی روز ضیاء الحق نے غصے میں بار بار کہا ’’یہ نہیں ہوسکتا، یہ نہیں ہوسکتا‘‘..... مطلب یہ کہ جرنیلوں کا ٹرائل نہیں ہوسکتا۔ پھر ٹرائل کا اعلان کرنے والی زبان کو چپ کرانا ضروری تھا اور اقتدار میں آ کر جرنیلوں کو لٹکانے والے کو لٹکانا ناگزیر ہو گیا تھا۔ مطلب یہ کہ ہماری سیاست کے حمام میں سبھی ایک جیسے ہیں، وہ بھی جو تاریخ سے نابلد ہیں یا صرفِ نظر کرتے ہیں اور وہ بھی جو تاریخ کے شعور کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ہماری تاریخ کا ایک اہم ترین اور نمایاں سبق ہے کہ جب ایک بار فوج سیاست میں ملوث یا شامل ہو جائے تو پھر دہائیوں تک اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ پھر سیاستدان اور حکمران یہ سوچیں یا خواب دیکھیں کہ وہ تنہا اختیارات یا فیصلوں کا سرچشمہ یا منبع ہیں، تو یہ حکمرانوں کی خام خیالی ہوگی۔ جتنے مرضی ہے ووٹ لے لیں، جتنے انتخابات چاہیں جیت لیں، جتنے نعرے چاہیں لگوا لیں لیکن اب اہم قومی فیصلوں میں اور ملک چلانے میں فوج شریک ِ اقتدار رہے گی۔ اس لئے میموگیٹ اسکینڈل اور ڈان لیکس جیسی حرکات یا سازشیں حکومت کی کمزوری اور حکمرانوں کی جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں اور بیک فائر کرتی ہیں۔ صرف اتنا سا سبق یاد رکھا جائے تو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں نہ رخنے پڑیں گے اور نہ دراڑیں نمودار ہوں گی۔ لیکن اگر بار بار وہی غلطیاں دہرائی جائیں تو پھر نتائج بھی وہی نکلیں گے جو ہم بار بار اپنی گناہگار آنکھوں سےدیکھ چکے ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ دھرنوں کے دوران وزیراعظم نے فوج کے حوالے سے پارلیمنٹ میں ایک بیان دیا تھا جس کی تردید منٹوں میں آگئی تھی اور نتیجے کے طور پر سبکی ہوئی حکومت کی۔ اس کے بعد لازم تھا کہ ہر اس معاملے پر عسکری قیادت سے مشورہ کرکے احکامات جاری کئے جاتے جن میں عسکری مضمرات کسی بھی طرح سےشامل تھے..... ڈان لیکس کے حوالے سے وزیراعظم ہائوس سے معاملے کو ٹھپ کرنے کے لئے جلد بازی میں نوٹی فکیشن جاری کرنا اسی اصول کی خلاف ورزی تھی جس کے نتیجے کے طور پر حکمرانوں کی سُبکی ہوئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو مسترد (Reject) جیسا لفظ استعمال کرنا پڑا۔ تاریخ کے طے شدہ اصول کے مطابق وزیراعظم صاحب رپورٹ ملنے پر عسکری قیادت سے مشورہ کرتے اور سمجھوتے کی فضا پیدا کرکے قابل قبول فیصلوں کا نوٹی فکیشن جاری کرتے یا وزارتِ داخلہ سے کرواتے۔ انہوں نے اس اصول سے انحراف کیا اور اب پھر ’’بعد از خرابی و پریشانی بسیار‘‘ وہی کام کرنے پر مجبور ہیں جو پہلے کرلیتے تو پریشانی، خُفگی، تنقیص اور شرمندگی سے بچ جاتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم کے سرکاری و غیرسرکاری مشیروں میں ذہنی بلوغت اور سیاسی بصیرت کی کمی ہے۔ اگر وزیراعظم کو مشورے دینے والے ذہنی طور پر بالغ، پختہ اور دوررس نگاہ کے مالک ہوتے تو انہیں ہرگز یہ نوٹی فکیشن عسکری قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر جاری نہ کرنے دیتے۔ میرا تجربہ ہے کہ دلائل سے میاں محمد نواز شریف کو کسی فیصلے سے باز بھی رکھا جاسکتا ہے اور ٹالا بھی جاسکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے تجزیے بھی ہوائی گھوڑے ہوتے ہیں اور اکثر باخبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے نیچے کی سطح سے سنی سنائی کو بڑی معتبر اطلاع بنا کر پیش کرتے ہیں اور اپنی اہمیت کا رنگ جماتے ہیں۔ ڈان لیکس کا معاملہ یوم اوّل ہی سے فوج کے لئے نہایت اہم اور حساس معاملہ تھا۔ حالات نے اسے مزید حساس بنا دیا۔ ویسے اس موقع پر رپورٹ آنے اور نوٹی فکیشن جاری ہونے کا ایک فائدہ ہوا کہ سجن یا ساجن جندال سے ملاقات کا واقعہ دب گیا ورنہ یہ ایسا بم تھا اور اس میں اتنا بارود تھا کہ اس کے پھٹنے سے سیاسی زمین لرزنے لگتی۔ نوٹیفکیشن کو آپ Blessing in Disguise سمجھیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ ڈان لیکس کو شدومد سے اٹھایا گیا تاکہ دبائو ڈال کر جنرل راحیل شریف توسیع حاصل کرسکیں۔جنرل راحیل شریف نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی وعدہ کرلیا تھا کہ وہ شریف خاندان پر حرف نہیں آنے دیں گے کیونکہ انگلیاں اس طرف اٹھ رہی تھیں۔ عسکری قیادت اس وعدے کا احترام کر رہی ہے اگرچہ انہیں یہ رعایت پسند نہیں۔ اس رعایت کے باوجود ادھورا اقدام شدید ناراضی کا باعث بنا اور نتیجہ ’’مسترد‘‘ نکلا۔ خبریں ہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت میں ملاقات ہونے والی ہے اور پھر وہی ہوگا جو وہ چاہیں گے لیکن مسترد کا داغ لگ چکا اب اسے کسی طرح دھویا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

.
تازہ ترین