• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے قصور رائو تحسین کو دیکھ کر مجھے ایک قصہ یاد آگیا ہے۔ جس سے آپ کو اندازہ ہوسکے گا کہ وزارت اطلاعات کے افسران کیا ہوتے ہیں، ان کی ذمہ داریاں اور مجبوریاں کیا ہوتی ہیں، ان کا دل کیا کہہ رہا ہوتا ہے اور وہ ادا کیا کررہے ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں ایک نام نہاد جمہوری حکومت کے دور میں میرے ہر کالم میں حکمرانوں کی ’’خاطر مدارت‘‘ ہوتی تھی۔ اس ’’خاص خدمت‘‘ پر وزارت اطلاعات کا ایک افسر بہت خوش ہوتاتھا۔ جس روز میرا کالم شائع ہوتا، اس کا فون آتا اور وہ کہتا ’’.....آج تو پوری وزارت میں آگ لگی ہوئی ہے، وزیراعظم ہائوس بھی سخت ناراض ہے، وزیر آپ کے بارے میں سخت باتیں کررہا تھا، ساری وزارت کے افسران سخت پریشان ہیں، آج تو آپ نے کمال ہی کردیا ہے، کھڑکا کے رکھ دیا ہے، زبردست لکھا ہے.....‘‘ ہر کالم پر داد تحسین دینے والے افسر سے ایک روز میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں، اس پر افسر کہنے لگا ’’.....میں اس حکومت کا انتہائی قابل اعتماد افسر ہوں، میں صبح سویرے کالموں کی سمری اپنی نگرانی میں تیار کرواتا ہوں اور کچھ کالم میں خود بھی دیکھتا ہوں، آپ کا کالم حکومت کی خاص ہدایت پر میں خصوصی طور پر انتہائی باریک بینی سے پڑھتا ہوں، دل سے خوش ہوتا ہوں، آپ کے ایک ایک جملے پر عش عش کرتا ہوں، مگر پھر ذمہ داری کے مطابق آپ کے خلاف کئی باتیں لکھتا ہوں، بعض اوقات آپ کے خلاف کالم لکھوانے کا بھی کہہ دیتا ہوں لیکن اس سب کے باوجود آپ کی تحریروں کا عاشق ہوں، اگرچہ حکومت مجھ پر بہت اعتماد کرتی ہے لیکن حکمرانوں کو میرے دل کا کیا پتا؟ دل کسے پسند کرتا ہے یہ مجھے پتا ہے یا پھر میرے خدا کو پتا ہے، خوشامدیوں پر مجھے بہت غصہ آتا ہے، مجھے حاشیہ برداروں سے نفرت ہے اور آپ سے محبت ہی نہیں عشق ہے کہ چلو کوئی تو ہے جو سچائی رقم کررہا ہے.....‘‘ جس روز میں نے اس افسر کے یہ جملے سنے، اس کے بعد مجھے وزارت اطلاعات کے افسران پر کبھی غصہ نہیں آیا بلکہ ہر دم ان کی مجبوریوں کا احساس رہا۔ نیوز لیکس کے واقعہ کا جو دورانیہ بیان کیا جارہا ہے، رائو تحسین ان دنوں ملتا ن تھے، ملتان سے انہوں نے لاہور کا رخ کیا، راستے میں شب بسری کیلئے اوکاڑہ رک گئے۔ اگلے دن اوکاڑہ سے لاہور کو عازم سفر ہوئے، جو شخص اسلام آباد میں نہیں تھا، اسے کرشمہ سازوں نے اسلام آباد میں ثابت کردیا۔ اگر رائو تحسین عہدے پرہوتے تو شاید یہ جملے میں نہ لکھتا، اب وہ عہدے سے ہٹ چکے ہیں، کورٹ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان سے متعلق لکھنے کی ایک وجہ ان کا ’’راوین‘‘ ہونا بھی ہے، نئے آنے والے محمد سلیم بیگ بھی ’’راوین‘‘ ہیں۔ شاید کم لوگوں کو پتا ہو کہ رائو تحسین اور سلیم بیگ کلاس فیلو ہیں، شیراز لطیف بھی ان کے کلاس فیلو ہیں بلکہ رائو تحسین کی اہلیہ بھی ان کی کلاس فیلو ہیں۔ قابلیت میں راوینز سب کو مات دیتے ہیںسو، دوستو! نہ جانے والے کی قابلیت پر شک تھا اور نہ آنے والے کی قابلیت پر شک ہے، دونوں باصلاحیت ہیں۔
جب میں آئی ایس پی آر پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ بڑے باصلاحیت تھے، انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا، نئے آنے والے جنرل آصف غفور بھی بڑے باصلاحیت ہیں، ان کا توایک ٹویٹ ہی سب پر بھاری ثابت ہوا، یہ ٹویٹ ایسا چھکا تھا جو گرائونڈ سے باہر جا گرا، کیچ کرنے والے دیکھتے ہی رہ گئے۔ انتیس اپریل کو ’’مین آف دی میچ‘‘ جنرل آصف غفور ہی تھے۔
آج کل ہیلتھ کارڈ بانٹے جارہےہیں، کارڈوں کی یہ تقسیم دیکھ کر مجھے ستر کی دہائی کے ’’راشن ڈپو‘‘ یاد آگئے ہیں، اس زمانے میں جن لوگوں کے پاس یہ ڈپو ہوتے تھے، ان کی بڑی شان ہوتی تھی، وہ جسے چاہتے زیادہ راشن دے دیتے، جسے چاہتے کم دیتے، بہت سوں کو راشن نہیں ملتا تھا، وہ صرف شور مچاتے تھے ڈپو مالکان چینی بڑے خاص لوگوں کو عنایت کرتے تھے۔ یہی حال آج کل ہیلتھ کارڈوں کا ہے، وزیراعظم جہاں جاتے ہیں، ساتھ ہیلتھ کارڈ لے جاتے ہیں، طاقتوروں کے علاوہ پسندیدہ لوگوں کو ہیلتھ کارڈ مل جاتے ہیں جبکہ عوام کی اکثریت منہ دیکھتے رہ جاتی ہے۔ مجھے کارڈوں کی اس بندر بانٹ پر اعتراض نہیں مگر ایک سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ اگر وطن عزیز میں اسپتال درست کام کررہے ہوں تو ان کارڈوں کی کیا ضرورت ہے، اگر تمام بیماروں کا علاج درست ہونا شروع ہو جائے تو پھر ایسے لچھن کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہیلتھ کارڈز کی تقسیم بتا رہی ہے کہ ملک میں اسپتال درست کام نہیں کررہے، صحت کے معاملے میں لوگوں کی ضروریات پوری نہیں ہورہیں۔ حکمران اپنا علاج تو برطانیہ سے کروا لیتے ہیں مگر انہیںووٹ دینے والوں کیلئے اپنے ملک کے اندر بھی علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں صحت اور تعلیم کی صورتحال قابل رشک نہیں ہے۔
ملک میں بے روزگاروں کی فوج تیار ہے، سرکاری ملازمتیں ایک طرف، پرائیویٹ سیکٹر میں بھی روزگار کے دروازے بند ہوتے جارہے ہیں مثلاً ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری برآمدات کی کمی کے باعث بند ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ مختلف ملکوں کی معیشت کو شکنجے میں جکڑنے والے عالمی مالیاتی ادارے ہیں، اسحٰق ڈار ان اداروں کے پکے مرید ہیں۔ ان اداروں کی کارستانیوں کے طفیل پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات پرڈیوٹی پندرہ فیصد ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش کیلئے یہ ڈیوٹی چھ فیصد ہے۔ ہندسوں کے اس گورکھ دھندے میں ہماری معیشت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ملتان کے ایک بے روزگار نوجوان کی داستان سن لیجئے۔ ایک اخباری خبر کے مطابق ایف آئی اے نے میپکو کے ایک افسرکے بارے میں تحقیقات شروع کردی ہیں، یہ تحقیقات ایک بیوہ خاتون کی درخواست پر شروع ہوئی ہیں، ملتان کی رہائشی بیوہ نے وفاقی وزیر داخلہ کے نام درخواست دی تھی کہ ’’.....میرے مرحوم شوہر نے چالیس سال میپکو ملتان میں نوکری کی جب میں مرنے والے کی جگہ پر اپنے نوجوان بیٹے کی نوکری کیلئے گئی (جو قوانین کے مطابق اس کا حق ہے) تو مجھے میپکو کے ایک افسر نے رشوت دینے کیلئے کہا، میں نے اس سے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، میرے مرحوم شوہر نے اس ادارے کی چالیس سال خدمت کی، اس پر افسر نے کہا کہ اسی لئے تو رشوت کم مانگ رہے ہیں، لیٹر کا کم از کم ایک لاکھ تو دیں.....‘‘ اللہ کرے اس خاتون کو انصاف مل جائے۔ ویسے یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہم اخلاقی طور پر کس قدر پستی کا شکار ہیں، ہم اپنے ساتھ کام کرنے والے افراد کے اہل خانہ سے بھی رشوت مانگ لیتے ہیں۔ اخلاقی پستی کا ایک اور ماڈل سپریم کورٹ میں اس وقت سامنے آیا جب دو اداروں نے جے آئی ٹی کے لئے ایسے نام پیش کئے جن کی نیک نامی پرسوالیہ نشان تھے، اسی لئے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ناموں کو مسترد کر کے پوری فہرست منگوا لی، مسترد شدہ ناموں والے اداروں کو سوچنا چاہئے کہ ہم کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہیں کہ ہمیں اپنی صفوں میں ایماندار اور دیانتدار لوگ تلاش کرنے پڑ رہے ہیں، یہ سب کچھ ہماری نام نہاد جمہوری حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ رہی بات ملتان کے نوجوان کی نوکری کی، چونکہ میرے خواجہ آصف اور عابد شیر علی سے اچھے مراسم ہیںتو میری ان دونوں سے گزارش ہے کہ وہ ایک مستحق یتیم بچے کو نوکری دے کر آخرت سنوارنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
آج کل یا جلسے جلوس ہورہےہیں یا اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے۔ جلسوں میں حالت عجیب ہے لوگ جھوٹ بول رہے ہیں، جھوٹ بولتے وقت انہیں لمحہ بھر کیلئے بھی احساس نہیں ہوتا کہ سچ بھی کوئی چیز ہے بلکہ حالت تو یہ ہے کہ چور بھی کہے چور، چور۔ اس ساری چکر بازی میںکسی کو کوئی احساس نہیں کہ لوگوں کے مسائل پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئے ہیں۔ واہ آرڈیننس فیکٹری میں بھٹو صاحب کے بعد چوہدری نثار علی خان دوسرے سیاستدان ہیں جو بہت گرجے۔ اس گرج سے مجھے یاد آیا کہ پچھلے سال ایک سیاستدان نے پی او ایف کے سربراہ کو 19لوگوں کے نام دیئے تھے کہ انہیں بھرتی کیا جائے۔ پی او ایف کے سربراہ نے انکار کردیا تھا اور کہا تھاکہ جو کچھ ہوگا میرٹ پر ہوگا۔ اختیارات کی کھینچا تانی جاری ہے۔ اس رسہ کشی میں سیاست بدل گئی ہے۔ پچھلے چالیس سال بھٹو اور اینٹی بھٹو کے نام پر سیاست ہوتی رہی، اب عمران اوراینٹی عمران کے نام پر ہورہی ہے۔ شاید اسی لئے تازہ خبر کے مطابق گورنر سندھ کی ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی ہے۔ مک مکا سیاست کے تحت ہونے والی اس پرسکون سہانی ملاقات میں گورنر سندھ کو ایک لمحے کیلئے بھی احساس نہیںہوا ہوگا کہ ملکی دولت کے چار سو اسی ارب کس نے لوٹے تھے، شاید سیاسی رسہ کشی میں ایساہی ہوتا ہے مگر رسہ کشی میں دلچسپی لینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ رسہ بالآخر طاقتور کھینچ لیتا ہے، کمزور کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں آتا، رسہ کشی کا اصول ہی طاقت ہے، بقول ناصر بشیر؎
میں آج لڑ رہا ہوں اکیلا محاذ پر
میری مدد کو کل مرا لشکر بھی آئے گا

.
تازہ ترین