• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی تاریخ بار بار بحرانوں سے گزری ہے جن کے باعث ہمارے قومی ادارے لاغر نظر آتے ہیں اور جمہوریت کی عمارت گاہے گاہے ڈگمگاتی رہتی ہے۔ حال ہی میں ایک ادارے کے ذیلی محکمے کی طرف سے ایک ٹویٹ نے پاکستان کی ریاست، اس کی فوج اور اس کی سیاسی قیادت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ٹویٹ میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے اس وقت کی گئی جب ڈان لیکس پر تفتیشی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے جناب وزیراعظم نے احکام صادر کیے تھے۔ ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’’وزیراعظم کا نوٹیفکیشن نامکمل ہے اور اسے مسترد کیا جاتا ہے‘‘۔ اس کے ردِعمل میں سوشل میڈیا پر باشعور شہریوں کے تندوتیز خیالات کا ایک تانتا بندھ گیا جن میں سول بالادستی کے حق میں آواز اُٹھائی جا رہی تھی۔ دوسرے روز وزیراعظم نے جاتی امرا میں صورتِ حال کا گہرائی سے جائزہ لینے کے لیے اجلاس طلب کیا جس میں وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں، وزیر خزانہ جناب اسحٰق ڈار، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن خصوصی طیارے سے لاہور آئے۔ اس اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے بھی شرکت کی۔ ہر لحظہ بگڑتے ہوئے حالات پر کئی گھنٹوں کے غور و خوض کے بعد جناب نوازشریف نے نہایت مدبرانہ ردِعمل ظاہر کیا کہ ’’تمام قومی ادارے پاکستان کی بھلائی اور ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں، ہم اُن کے درمیان کسی محاذ آرائی کی اجازت نہیں دیں گے اور مشاورت سے معاملات حسن و خوبی سے طے کر لیے جائیں گے‘‘۔ یہ ردِ عمل ایک ایسے قومی لیڈر کا تھا جو لمحاتی کیفیتوں سے متاثر ہوئے بغیر ایک درخشندہ مستقبل کی تعمیر کے خواب دیکھ رہا ہے اور تمام قومی طاقتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی زبردست خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہیجان انگیز فضا میں جناب وزیراعظم نے خود اعتمادی، بردباری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ یوں بات چیت کے دروازے کشادہ ہو گئے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نہایت اچھی شہرت رکھنے والے ایک ذہین افسر ہیں۔ انہوں نے جو ردِعمل دیا ہے، وہ ان کے ادارے کا ایک سوچا سمجھا ردِعمل ہے۔ دراصل جب سے آئی ایس پی آر کے افسروں نے ٹویٹ کلچر اپنایا ہے، اس وقت سے سول ملٹری کے مابین رنجشوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا گیا ہے۔ اس کا آغاز جنرل راحیل شریف کے سپاہ سالاری کے دور میں ہوا۔ وہ عوام کے اندر اپنی خاندانی عظمت اور اپنی شخصیت کی وجاہت سے بڑے مقبول تھے اور انہوں نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کر کے زبردست قائدانہ صلاحیت کا ثبوت دیا جس میں آپریشن کرنے سے جنرل پرویز کیانی گریزاں رہے اور دہشت گردوں کو اپنی پناہ گاہوں کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا موقع فراہم کرتے رہے۔ عوام کے اندر اپنی بے پناہ مقبولیت کے پیش نظر جنرل راحیل شریف کو اپنے دائرہ اختیار میں اضافے کا شوق پیدا ہوا اَور انہوں نے اپنی شخصیت کا امیج تراشنے کے لیے آئی ایس پی آر میں حیرت انگیز وسعت کا انتظام کیا اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز کر دیا۔ عاصم باجوہ صاحب نے بے پایاں وسائل سے ہزاروں کی تعداد میں ایک بڑی فوج تیار کی اور صحافیوں کے اندر دوستیاں پیدا کیں جنہیں ٹویٹس کے ذریعے لحظہ بہ لحظہ پیغام دیے جاتے رہے۔ ٹی وی چینلز میں ان کے یارانے قائم ہو چکے تھے۔ یہ تعلقات جنرل راحیل شریف کا خوبصورت امیج بنانے اور حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے۔
سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے مزاج کے اعتبار سے جمہوریت کے استحکام اور سویلین حکومت کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کو تبدیل کر کے ان کی جگہ میجر جنرل آصف غفور کو تعینات کیا اور یہ عندیہ بھی دیا کہ آرمی چیف کے کارنامے بیان کرنے کے بجائے افواجِ پاکستان کے بارے میں عوام کو مستند اطلاعات فراہم کی جائیں۔ انہوں نے ’ردالفساد‘ کے نام سے ایک ہمہ گیر آپریشن کا آغاز کیا جو قرآن کے تصور کے عین مطابق ہے۔ اس آپریشن کے نہایت اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور پورے پاکستان میں دہشت گردوں کا تعاقب جاری ہے۔ انہی سرگرمیوں کی بدولت بلوچستان میں سینکڑوں کی تعداد میں ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والے سرنڈر کر رہے ہیں اور تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے پاس اپنے آپ کو حکومتِ پاکستان کے حوالے کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ اگر آئی ایس پی آر میں ٹویٹس کلچر ختم کر دیا جاتا تو سول ملٹری قیادت کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا ایک سازگار ماحول میسر آ جاتا اور 28اپریل کی رات وزیراعظم کے ہدایت نامہ کو مسترد کرنے کا جو ٹویٹ جاری ہوا، پاکستان اس حادثے سے محفوظ رہتا۔
تاریخی اعتبار سے ڈان لیکس کا واقعہ جنرل راحیل شریف کے عہد میں رونما ہوا جو شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا گیا۔ 6؍اکتوبر 2016ء کو انگریزی اخبار ڈان میں ایک خبر شائع ہوئی کہ وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں ایک اہم حکومتی عہدیدار نے جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں اعلیٰ فوجی افسروں سے کہا کہ سول حکومت اپنے پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے، جبکہ فوج نے دہشت گرد پال رکھے ہیں جو مختلف ملکوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں۔ جب یہ اسٹوری شائع ہوئی، تو صحافت کے پچپن سالہ تجربے کی بدولت میرے وجدان نے کہا کہ یہ ایک من گھڑت کہانی ہے اور جس صحافی نے یہ اسٹوری فائل کی ہے، اس سے بازپرس ہونی چاہیے۔ وہ صاحب اسی بات پر اصرار کرتے رہے۔ بعدازاں امریکہ چلے گئے اور نفرتوں کے الاؤ دہکتے رہے۔
معاملے کو انتظامی بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے مشترکہ تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ سر اُٹھانے لگا کہ سول اداروں کے علاوہ فوجی اداروں کے نمائندے بھی شامل کیے جائیں۔ عدالتِ عالیہ کے ایک ریٹائرڈ جج اس کی سربراہی کے لیے منتخب کیے گئے۔ اس کمیشن میں ایک بھی ایسے صاحب شامل نہیں کیے گئے جو خبروں کی اشاعت کے طریق کار اور مدارج سے واقف ہوں۔ حیرت کی بات یہ کہ اس کمیشن نے ڈان کے ایڈیٹر اور اسٹوری فائل کرنے والے کالم نگار کو بھی طلب نہیں کیا۔ چار پانچ ماہ کی تحقیقات کے بعد جو رپورٹ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کی گئی، وہ عجوبوں کا ایک پلندہ معلوم ہوتی ہے۔ کمیشن اپنی تفتیش کے دوران اس شخص کا تعین نہیں کرسکا جس نے خبر لیک کی تھی، مگر اس نے چار ایسے افراد کے خلاف ایکشن لینے کی سفارشات کر ڈالیں جو ماضی میں نہایت حساس ذمہ داریوں کے امین رہے ہیں۔ جناب سید طارق فاطمی نے اپنے الوداعی خط میں لکھا ہے کہ میں نے پاکستان کی پچاس سال خدمت کی ہے اور میں انتہائی حساس معاملات کا ذمہ دار رہا ہوں۔ میرا خبر کی لیکس سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح پرویز رشید ایک باوقار سیاسی شخصیت کے حامل ہیں۔ جناب راؤ تحسین علی خاں ایک تجربے کار سرکاری افسر ہیں جنہوں نے تعلقاتِ عامہ کے فن میں مہارت حاصل کی ہے۔ اس بنا پر دونوں کو اپنے عہدوں سے الگ کرنا کہ وہ خبر کی اشاعت روکنے میں ناکام رہے، ایک نہایت خطرناک روایت قائم کرنے کا شاخسانہ ثابت ہو گا۔ سیاسی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور ان تمام سلگتے ہوئے سوالات کا جائزہ لینا اور انصاف کی عمل داری کا احترام کرنا ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ احساس کی روشنی سیاسی اور عسکری قیادت کو حالات معمول پر لانے کے لیے انا کے خول سے باہر آنا اور باہمی اعتبار کا نور ہر سو پھیلانا ہوگا۔ اس میں جنرل قمر جاوید باجوہ پیش قدمی کر کے ایک صحت مند روایت قائم کر سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین