• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ فقرہ تھا جو کانفرنس کے دوران پشاور میں ہمارے کے پی کے دوست نے سناتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ بہت دلچسپ ماحول تھا کہ فاٹا کے، کے پی کے اور پاکستان کے تمام علاقوں کے ادیب اس موضوع پر تبادلہ خیالات کررہے تھے کہ ساری دنیا اور خاص کر ہمارے ملک میں باہمی اعتماد، یگانگت اور امن کیسے قائم ہوگا۔ مقررین نے چاہے پشتو میں تبادلہ خیالات کیا، چاہے شعر سنائے مگر سب پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کو تلقین کررہے تھے کہ خدارا کوئی تو ایسے اقدامات کرے کہ پاکستان ہو کہ شام یا یمن، دہشت گردی اور خودکش حملے بند ہوں۔ یہ بھی تجزیہ کیا گیا کہ ہماری بیشتر تاریخ ہی غلط لکھی گئی ہے۔ ہم نے وسط ایشیا سے آنے والے حملہ آوروں کو اپنا تہذیبی ثقافتی اور مذہبی رہنما جانا، محمود غزنوی کے سترہ حملوں کو ایمان کے فروغ کا منبع سمجھا، محمد بن قاسم کو اسلام کے فروغ کے لئے آنے والا نوجوان گردانا۔ اکبر کو مختلف مذہبوں میں یگانگت پھیلانے والا رہنما جانا، اورنگزیب کے ٹوپیاں سی کر اپنی روٹی چلانے کو بے پناہ اہمیت کا حامل جانا۔ اس دوران مرہٹے ہندوستان پر قبضہ کرتے گئے، اس کو صرف نظر کیا۔ تمام بے عزتی کے باوجود بہادر شاہ ظفر نے جلاوطنی میں زندگی گزاری اور ہم نے اس کی تعریف میں قصیدے لکھے۔
پھر انگریز آئے تو ان کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو غدار اور انگریزوں کی تعریف کرنے والوں کو زمینوں کے مربع دئیے گئے، سر کے خطابات دئیے گئے۔ حریت پسندوں کو 1857 ء کی جنگ آزادی میں نہ صرف گولیوں سے بھونا گیا، اس جنگ آزادی کو غدر کا نام دیا۔ جلیانوالہ باغ میں سینکڑوں لوگوں کو لاشوں کے انبار بناکر چھوڑا گیا اور پھر جب 1940 میں قرارداد پاکستان پاس ہوئی تو انگریز اور ہندوئوں نے مل کر تقسیم ہندوستان کا نقشہ فیصلے کے مطابق نہیں بلکہ پنڈت نہرو کے ساتھ لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیوی کے مراسم کے باعث ہندوستان کو آدھا پنجاب، آدھا بنگال اور پاکستان میں گورداسپور کے آجانے کے باوجود نہرو کی فرمائش پر گورداسپور کو بھی ہندوستان کا حصہ اس لئے بنایا گیا کہ اس وقت کشمیر جانے کے لئے ہی ایک راستہ تھا۔
یہ ہے قیام پاکستان سے پہلے کی تاریخ جسے ہمارے مشاہیر کی تاریخ کہہ کر پڑھایا گیا۔ پاکستان کے قیام میں کس طرح بلوچستان اور سرحد کے لوگوں نے خود اعتمادی کے زور پر پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ سندھ میں پاکستان میں شمولیت کی قرارداد، قیام پاکستان سے پہلے اسمبلی پاس کرچکی تھی۔ پنجاب میں یونیونسٹوں کی حکومت تھی پھر بھی جب قیام پاکستان کا موقع آیا تو سب موقع پرست، قیام پاکستان میں اپنی اپنی جگہ بنانے میں مصروف ہوگئے، اس لئے تو 1947سے لے کر 1956 تک پاکستان کا آئین نہیں بن سکا۔ یہ آئین بھی جنرل ایوب کے مارشل لا میں اپنی زندگی ختم کرچکا۔ہماری نصابی کتابوں میں یہ سب نہیں لکھا گیا، وہاں تو کہا گیا کہ 1965کی جنگ ہندوستان نے شروع کی تھی جبکہ ساری دنیا میں خود ہمارے ملک میں تاریخ لکھنے والوں نے بتایا ہے کہ یہ جنگ تو ہم نے شروع کی تھی۔ البتہ 1971 کی جنگ انڈیا نے شروع کی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کی سرحدوں کو ایسے چھیڑا جائے کہ ادھر پاکستان کے مغربی حصے میں شملہ معاہدے کے تحت بظاہر تو جنگ بندی کی جائے مگر مشرقی پاکستان کے گوریلا گروہوںکے ساتھ ہندوستان فوج مل کر ایسا گھیرائو رکھیں کہ مشرقی پاکستان میںموجود 90 ہزار پاکستانی فوجیوں کو ہندوستان کے فوجی سربراہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑیں۔ نصاب میں تو صرف یہ لکھا ہے کہ باہمی معاہدے کے تحت پاکستانی فوجوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
ارے یہ سب باتیں پشاور اور فاٹا کانفرنس میں زیر بحث آئیں کہ 1979سے لے کر اب تک جو لوگ مجاہدین کہلاتے تھے، وہ دہشت گرد اور خودکش حملہ آور مانے جانے لگے۔ کے۔ پی کا کلچر افغان مہاجرین نے متاثر کردیا۔ 30 لاکھ افغان مہاجرین نے باچا خان اور غنی خان کے تحمل اور برداشت کے عزم مسلسل کو نیست و نابود کیا اور وہ کابل جہاں سے دلہن لانے کا تصور ہماری مائیں کیا کرتی تھیں، اس کو مسل کر رکھ دیا۔ اس دوران اردو اور پشتو میں جو ادب لکھا گیا اس کا ترجمہ ہر دو زبانوں میں کیا جائے، یہ تھی سفارش۔
اس کانفرنس کا اہتمام تو اکیڈمی آف لیٹرز کے بے پناہ کام کرنے والے ڈاکٹر بوگھیو نے کیا، میزبانی اس اسلامیہ کالج نے کی جو اب یونیورسٹی ہے جہاں احمد فراز اور محسن احسان پڑھاتے رہے ہیں۔ کمال تو وائس چانسلر نے کیا، ہر چند ان کا تعلق سوات سے ہے، مگر میزبانی کا حق دونوں دن ادا کیا۔ ہمارے ساتھ مل کر دال چاول کھائے اور بتایا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں ابتدا ہی سے مخلوط تعلیم ہے۔ ساڑھے گیارہ ہزار پڑھنے والوں میں آدھی لڑکیاں ہیں۔ میں دعا کرتی رہی کہ وہ لڑکیاں بڑی ہو کر ڈاکٹر لعل بہا بن جائیں لڑکے مشعال اور احمد فراز کی طرح حوصلے سے بات کریں مگر جب تک ہم آہنگی، کم ذہنیت دہشت گردی اور انتہاپسندی کی جگہ نہیں لے گی، ہمارے ملک میں امن نہیں آئے گا۔ امن کا سبق اب کیا میں ٹرمپ کو بھی سکھائوں جو افغان بچوں پر حملہ کراتا ہے، جو شامی اسپتالوں پر بھی بم گراتا ہے یا پھر پاکستانی سیاستدانوں کو… اف توبہ ؟؟؟

.
تازہ ترین