• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوی امید ہے کہ حالیہ سول ملٹری کھچائو جلد ہی دور ہو جائے گا۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں اہم قومی پالیسیوں میں فوج کا کردار کافی اہم رہا ہے وہاں اس طرح کی ٹینشن ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے تاہم اس تازہ ترین واقعہ نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی انتہائی غلط میسج دیا ہے کہ یہاں ایک ادارہ ہی کرتا دھرتا ہے اور جمہوریت صرف نام کی ہے۔ پاکستان کے دشمن کافی خوش ہوئے کہ سول اور ملٹری کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر میں میڈیا نے اس کو خوب اچھالا کیونکہ یہ بڑی خبر تھی۔ اس سارے قضیے کے پیچھے اصل کام 140 کریکٹرز کا تھا جوٹوئٹر پر لکھے گئے جس میں یہ کہا گیا کہ وزیراعظم کے آفس کی طرف سے جاری کیا گیا ’’نوٹیفکیشن‘‘ نامکمل ہے ،یہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کے مطابق نہیں اور اسے مسترد کیا جاتا ہے۔ یہ ٹوئٹر پوسٹ وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد کی طرف سے جاری کیے گئے ایک لیٹر کے فوراً بعد سامنے آئی۔ یوں لگا کہ اس خط پر نہ تو ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا گیا نہ ہی اسے توجہ سے پڑھا گیا اور انتہائی عجلت میں ردعمل جاری کر دیا گیا۔ ٹوئٹر کی دریافت کے بعد ملک کے اہم ترین اداروں نے بھی اپنے پیغامات جاری کرنے کیلئے اسی میڈیا کا سہارا لیا ہوا ہے حالانکہ چاہئے تو یہ کہ اس طرح کے نازک مسئلے پر سوچ بچار کرکے پریس ریلیز تیار کی جائے اور اس سے قبل بہتر یہ ہے کہ متعلقہ آفس سے بات بھی کر لی جائے تاکہ جلدی میں ری ایکشن دیتے ہوئے غلطی اور مس ریڈنگ کا امکان نہ رہے۔ وزیراعظم کے لیٹر کو صحیح سمجھا ہی نہیں گیا تھا کیونکہ یہ نوٹیفکیشن نہیں تھا بلکہ ڈائریکٹو تھا جو کہ متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو جاری کیا گیا تھا کہ وہ مختلف ایکشن لیں جن میں وزارت اطلاعات، وزارت داخلہ، کیبنٹ ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن شامل تھے۔ وزیراعظم آفس کوئی نوٹیفکیشن ایشو نہیں کرتا بلکہ وہ تو صرف ڈائریکٹو دیتا ہے جن پر عملدرآمد مختلف حکومتی محکموں نے کرنا ہوتا ہے۔ اگر اداروں کے درمیان رابطہ ہو اور مسئلے کی مطمئن انداز میں وضاحت ہو جائے تو ایسی نوبت نہ آئے۔ سوشل میڈیا پر اس پوسٹ پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے حق میں بہت ہی کم آوازیں ملیں جبکہ اس کی مخالفت میں ٹویٹس لاتعداد تھے۔ یقیناً متعلقہ ادارے کے ذیلی محکمے نے اس طرح کی تمام پوسٹوں کو مانیٹر کیا ہوگا اور اسے اچھی طرح معلوم ہو گیا ہوگا کہ عوامی ردعمل کیا ہے۔ تاہم اس تمام ری ایکشن پر وہ مکمل طور پر خاموش رہا ہے۔ یہ ٹویٹ حقائق کے بھی منافی تھی کیونکہ ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی نے جو جو بھی سفارش کی تھی وزیراعظم نے اس کو منظور کر لیا تھا۔یہ سفارشات وزیراعظم کےا سپیشل اسسٹنٹ سید طارق فاطمی، پی آئی او رائو تحسین علی اور اخبار، اس کے ایڈیٹر اور اس کے رپورٹرکے خلاف تھیں۔ جہاں تک سینیٹر پرویزرشید کا تعلق ہے تو ان کو تو بہت پہلے ہی بطور وزیراطلاعات ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا تھا۔ تمام وہ اشخاص جو ان سفارشات کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے ۔ پی آئی او نے تو یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ ان کے خلاف ہونے والے ایکشن کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ اگرچہ ٹویٹ کو کافی دن گزر گئے ہیں مگر اب بھی وقت ہے کہ اسے واپس لے لیا جائے یہی دانشمندی ہوگی کیونکہ یہ حقائق کے خلاف ہے اور اس میں خواہ مخواہ تنازع کھڑا ہوگیا ۔ جمہوریت کا مذاق اڑانا کسی کیلئے بھی سود مند نہیں ہے اور ملک کا تو نقصان ہوتا ہی ہے۔ کچھ ریٹائرڈ حضرات جوکہ اکثر وبیشتر ٹی وی پروگراموں میں آکر فوج کا نقطہ نظر اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے ترجمان ہیں، نے بھی متعلقہ ادارے کے ذیلی محکمے کے ٹویٹ کو صحیح نہیں سمجھا۔ سوائے چند سیاستدانوں کے جن کی آنکھوں پر خواہشات کی پٹی بندھی ہوئی ہے سب نے اس ٹویٹ کو مسترد کیا ہے یہاں تک کہ سیکرٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) جہانگیر ترین نے بھی کہہ دیا کہ یہ ٹویٹ جاری نہیں ہونا چاہئے تھا۔
گزشتہ کئی سالوں سے اعلیٰ عدلیہ مختلف سیاسی نوعیت کے مقدمات کو نپٹانے کی وجہ سے بہت زیادہ انڈر فوکس ہے اور بالکل ایسے آثار نہیں ہیں کہ مستقبل قریب میں اس عوامی توجہ میں کوئی کمی آئے گی۔پچھلے 6 ماہ سے سپریم کورٹ پانامہ کیس کی وجہ سے بہت مصروف رہی ہے اور ہر ایک کی نظریں اس پر لگی رہی ہیں لیکن یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ اس مقدمے کا ابھی حتمی فیصلہ ہونا ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچے کٹہرے میں رہے اور ابھی وہ اسی حالت میں رہیں گے کیونکہ اب تو جے آئی ٹی نے کام شروع کرنا ہے اور اس کی روشنی میں ہی تین رکنی بنچ نے اس پر پھر کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور ان کے ترجمانوں کے خوب مزے رہے ۔انہوں نے کھل کر شریف فیملی پر تنقید کے تیر برسائے اور میڈیا کا میلہ لوٹتے رہے۔ اب عمران خان اور جہانگیر ترین ڈاک (dock) میں ہیں۔ نون لیگی حنیف عباسی ان دونوں کو عدالت عظمیٰ میں لے کر آئے ہیں کہ وہ اپنی آف شور کمپنیوں اور ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا جواب دیں۔ اب ہر روز درخواست گزار اور ان کی پارٹی کے دوسرے رہنما عمران خان کی درگت بنا رہے ہیں مگر نہ تو چیئرمین پی ٹی آئی اور نہ ہی ان کے ترجمان عدالتی سماعت کے بعد پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہیں کہ اس طرح کرنے سے ان کے خلاف لگے الزامات مزید اجاگر ہوں گے۔ عمران خان اور جہانگیر ترین پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی آف شور کمپنیاں چھپائیں اور انہیں اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو یہ جواب دینا ہے کہ ان کے اور ا نکی سابقہ بیوی جمائمہ خان کے بنی گالہ کی زمین کے بارے میں دیئے گئے چار بیانات میں سے کون سا سچا ہے اور کون سا جھوٹا۔ اب انہیں لینے کے دینے پڑے ہوئے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ کیس بہت زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چلے گا کیونکہ یہ بڑا سیدھا سادا مقدمہ ہے۔ نہ ہی عمران خان نے اور نہ ہی جہانگیر ترین نے اپنی آف شور کمپنیاں پاکستان کے کسی ادارے کے سامنے ڈکلیئر کی تھیں ۔اس راز سے پردہ دی نیوز نے اٹھایا تھا جب یہ مستندا سکوپ ہمارے رپورٹر محمد احمد نورانی نے چھاپے تواس کے بعد پی ٹی آئی کے دونوں لیڈروں کے پاس کوئی چارہ ہی نہ رہا کہ وہ تسلیم کر لیں کہ یہ آف شور کمپنیاں انہی کی ہیں۔ پہلے تو وہ ایسی فرموں کو ٹیکس چوری کا ذریعہ قرار دیتے تھے مگر اس کے بعد انہوں نے نئے نئے جواز دینے شروع کر دیئے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ آف شور کمپنیاں بنانا کوئی جرم نہیں ہے۔ مگر اب تو انہوں نے یہ عدالت میں ثابت کرنا ہے کہ کیا انہوں نے یہ کمپنیاں چھپا کر کوئی جرم کیا یا نہ کیا۔

.
تازہ ترین