• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غدار وطن ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے ایک بار پھر امریکی دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ امریکہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح شکیل آفریدی کو بھی اب جلد پاکستانی قید سے رہا کروا کر لے جانا چاہتا ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے 25اپریل کو وائٹ ہائوس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر کے درمیان ہونے والی اہم ملاقات میں دیگر ایشوز کے علاوہ شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ اگر شکیل آفریدی کو امریکہ پاکستان سے چھڑا کر لے جاتا ہے تو ری پبلکن صدر کو اس کا زبردست سیاسی فائدہ ہو گا کیونکہ ٹرمپ کی مخالف ڈیمو کریٹک پارٹی کے سینئر ارکان بھی شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم حکومتی وزرا نے رواں سال پارلیمنٹ کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے لیکن دکھائی یہ دیتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس اہم معاملے پر حکومت پاکستان بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہے۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ یہ ایک نہایت حساس مسئلہ ہے اسے حل کرنے کے لئے حکومت پاکستان کو ملک میں عوامی ردعمل بھی پیش نظر رکھنا پڑے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک وملت کے غدار شکیل آفریدی کو تو امریکہ کے حوالے کرنے کے لئے انتہائی عجلت سے کام لیا جا رہا ہے مگر پاکستان کی غیرت اور قومی کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ہمارے حکمران بھلائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ارباب اقتدار کے اندر اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ امریکہ سے اپنے ملک کی شہری مظلوم پاکستانی خاتون کو واپس مانگ سکیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے ماضی میں جو بہترین اور سنہری مواقع ہمیں ملے تھے وہ بھی ہم گنوا چکے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل جب وائٹ ہائوس میں اقتدار کی منتقل ہو رہی تھی امریکی حکام کی جانب سے عافیہ صدیقی کے وکلا کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ اگر حکومت پاکستان اُس وقت امریکی حکومت کو خط لکھ دیتی تو براک اوباما اقتدار سے رخصت ہونے سے پہلے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا پروانہ جاری کر سکتے تھے لیکن مقام افسوس ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قومی نوعیت کے اس اہم معاملے پر دانستہ طور پر لاپروائی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ ایک مرتبہ پھر شکیل آفریدی کا دیرینہ مطالبہ بڑی شدت سے دہرا رہی ہے اب ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ ہم امریکہ پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے لئے دبائو ڈالیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے تو خود ڈاکٹر عافیہ کے گھر جا کر ان کی والدہ سے 100دنوں میں عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تو اس وعدے کو بھی چار سال ہو چکے ہیں۔ آخر کب تک حکومتی بے حسی کا یہ سلسلہ چلے گا؟ میں نے انہی کالموں میں پچھلے دنوں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے تفصیلی تذکرہ کیا تھا۔ مجھے قارئین کرام اور سوشل میڈیا پر موجود اکثر احباب نے بھی اس جانب متوجہ کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ایک قومی و ملی غیرت کا معاملہ ہے اس پر وقتاً فوقتاً ضرور لکھا جانا چاہئے۔ اسی تناظر میں مجھے ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے خط بھجوایا ہے جو کہ نذر قارئین ہے!
محترم محمد فاروق چوہان صاحب!
کالم نگار روزنامہ جنگ،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
میں اپنی بہن اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے سلسلے میں آپ سے ایک مرتبہ پھر اس لئے رابطہ کر رہی ہوں کہ محترم وفاقی وزیر خرانہ جناب اسحاق ڈار نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران وائٹ ہائوس میں امریکی مشیر قومی سلامتی میک ماسٹر سے ملاقات کی ہے جس میں شکیل آفریدی کی رہائی سے متعلق بات چیت ہوئی ہے۔ جس کی تمام تر تفصیلات پاکستانی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہو چکی ہیں۔ 2016ء میں امریکی انتظامیہ اور صدر براک اوباما عافیہ کو باعزت طور پر پاکستان کو دینے پر آمادہ تھے۔ ہم تمام اہل خانہ کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ 14سال کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد عافیہ سے ملاقات کے درمیان چند لمحات کا فاصلہ طے کرنا باقی رہ گیا۔ یہ کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت تھی کیونکہ عافیہ کے امریکی وکلا اسٹیون ڈائونز اور کیتھی مینلے سے امریکی انتظامیہ نے خود رابطہ کرکے صدارتی معافی کے سلسلے میں صدر مملکت جناب ممنون حسین یا وزیراعظم جناب نواز شریف کی جانب سے ایک خط کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ عافیہ پاکستانی شہری ہے اس لئے امریکی قوانین کے مطابق صدر براک اوباما حکومت پاکستان کی باضابطہ درخواست کے بغیر عافیہ کو رہا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ ہمیں حکومتی حکام نے اس موقع پر یہ کہہ کر دلاسا دیا کہ جہاں آپ کے خاندان نے14 سال کی طویل مدت تک صبر و تحمل سے کام لیا ہے ملک اور قوم کی خاطر شکیل آفریدی کے تبادلے میں عافیہ کی واپسی کے کچھ انتظار کی اور قربانی دیدیں۔ یہ تبادلہ مارچ کے مہینے میں ہونا تھا مگر کچھ سیاسی وجوہات کی وجہ سے اسے مئی تک موخر کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سال مارچ کے اوائل میں ہوسٹن امریکہ میں پاکستانی قونصل خانے کی خاتون قونصلر عائشہ فاروقی نے عافیہ سے ملاقات کی تھی۔ امریکی جیل میں عافیہ کی حالت زار دیکھ کر شدت جذبات سے عائشہ فاروقی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق امریکی ملٹری اور سی آئی اے عافیہ کی رہائی کے معاملے پر متفق ہیں۔ وزیر خرانہ اسحاق ڈار کا حالیہ دورہ امریکہ اور وائٹ ہائوس میں امریکی مشیر قومی سلامتی میک ماسٹر سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ہمیں اطلاع ملی ہے اور ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا ہے کہ اب یہ کام وفاقی وزیر خرانہ اسحاق ڈار کے ذمہ لگایا گیا ہے۔ ہمارے وکلا کا موقف ہے کہ جب امریکی انتظامیہ عافیہ کو رہا کرنے کیلئے رضامند ہے تو وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے وعدے کے برخلاف میک ماسٹر سے عافیہ کی واپسی سے متعلق گفت و شنید کیوں نہیں کی؟ ماضی کے تجربات کی وجہ سے ہمارا تشویش میں مبتلا ہونا ایک فطری امر ہے۔ کیا ایک مرتبہ پھر ڈالروں کے بدلے قومی وقار کا سودا ہونے جا رہا ہے؟ جو کام وزارت خارجہ کا ہے اس کی ذمہ داری وزارت خزانہ کو کیوں دی گئی ہے؟ قرآن و حدیث کے احکامات، ائمہ و فقہاء کرام اور سلف صالحین کے فتاویٰ اور آراء کی روشنی میں عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کے معاملے کا جائزہ لیں تو یہ فریضہ پوری امت مسلمہ پر عائد ہو چکا ہے جو ہمارے حکمرانوں کی کوششوں سے اب بآسانی ادا ہو سکتا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس اہم اور نادر موقع پرپاکستانی قوم اور امت مسلمہ کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلئے حکمرانوں، ارباب اختیار اور ریاستی اداروں کو ان کی دینی، ملی اور آئینی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ مجھے اللہ کی ذات سے پوری امید ہے کہ آپ کی یہ کاوش دنیا میں عزت و افتخار اور آخرت میں نجات اور اجر عظیم کا باعث بنے گی۔ ان شاء اللہ!
والسلام......ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

.
تازہ ترین