• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل میرے وفاقی دارالحکومت کے دو روزہ دورہ کے موقع پر یوں تو بہت سی سیاسی اور ریاستی ، سفارتی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں لیکن ان میں سب سے اہم پاکستان میں تعینات عراق کے سفیر ڈاکٹر علی یٰسین کریم سے ہونے والی ملاقات تھی جس میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حوالہ سے بہت سی باتیں کیں انہوں نے بتایا اس سے پہلے وہ میکسیکو میں بطور سفارت کار فرائض انجام دے رہے تھے ،حال ہی میں ان کی تعیناتی پاکستان میں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ عراق اب پہلے سے زیادہ پر امن ہے لیکن وہاں پر داعش کو ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکا مگر اسکے خاتمہ کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ عراقی سفیر کا کہنا تھا کہ داعش کی ہمارے ملک میں موجودگی ایک عالمی سازش ہے ۔یہ بات بھی انتہائی حیران کن اور باعث تشویش ہے کہ سابق صدر صدام حسین کی حامی فورسز کی اکثریت داعش کا حصہ بن چکی ہیں۔اس ملاقات میں اسلامی فوجی اتحاد اور جنرل راحیل کی بطور سپہ سالار تعیناتی پر بھی گفتگو ہوئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل کو اس اتحاد کا سپہ سالار نہیں بننا چاہیے تھا کیونکہ اس اسلامی اتحاد میں ایران، عراق اور شام سمیت بہت سے دیگر اسلامی ممالک شامل نہیں ہیں۔ ان کو مؤقف تھا کہ سعودی عرب کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے اسلامی فوجی اتحاد میں جو اسلامی ملک شامل نہیں وہ اس اتحاد کے قیام سے زیادہ خوش نہیں ہیں ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلہ میں ایران، عراق اور شام سمیت دیگرممالک جو اس اتحاد کا حصہ نہیں ان کو اس حوالے سے ناصرف اعتماد میں لیا جاناچاہیے تھابلکہ یہ کوششیں بھی کی جانی چاہئیںتھیں کہ یہ اتحاد غیر متنازعہ نہ ہو اور اس میں تمام اسلامی ممالک شامل ہوں۔ان کے خیال میں عراق ، لیبیا، شام خاص طور پر عرب ممالک کو غیر مستحکم کرنے کے پیچھے عالمی سطح پر سازشیں ہو رہی ہیں جس پرہم سب کو تشویش ہونی چاہیے ۔ہمیں اقتصادی اور معاشی طور پر تباہ حال کرنے کے بعد اگلہ ٹارگٹ سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستیں ہو سکتی ہیں۔ عراقی سفیر ڈاکٹر علی یٰسین کریم نے انتہائی اہم بات کرتے ہوئے کہا کہ اب جب جنرل راحیل شریف اس اسلامی فوجی اتحاد کی کمان سنبھال چکے ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ اسلامی ممالک جو اس اتحاد کے حوالہ سے تحفظات رکھتے ہیں ناصر ف ان کے تحفظات دور کیے جائیں بلکہ انہیں مکمل طور پر اعتماد میں لیا جائے اور انہیں اسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت کے حوالہ سے بھی مربوط کوششیں شروع کرنا چاہئیں۔عراقی سفیر کے تحفظات ، خدشات اور مؤقف ہو سکتا ہے ان کی حکومت اور ملک کے زمینی حقائق کی ترجمانی کرتا ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ پاکستان ان کے اس تحفظات اور خدشات کی مکمل حمایت کرے۔ جنرل راحیل شریف کا دہشت گردی کے خلاف بننے والے اسلامی فوجی اتحاد کا سپہ سالار بننے کا فیصلہ حکومت پاکستان کا درست اقدام ہے کیونکہ ہمارے زمینی حقائق اس کی توثیق کرتے ہیں۔ جنرل راحیل نے آپریشن ضرب عضب کے دوران دنیا کے خطرناک ترین دہشتگردوں کی کمر توڑ کر یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان سمیت اقوام عالم کو درپیش دہشت گردی ناسور سے نمٹنے کے اہل ہیں جبکہ جنرل راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننا ہماری خارجہ پالیسی کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے اس کا اندازہ مستقبل قریب میں لگانا زیادہ آسان ہوگا۔ ہمارا روایتی دشمن بھارت جو تیزی سے عرب خطہ میں اپنے قدم جمانے اور پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے مربوط اور جامعہ خارجہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ سعودی عرب اور یمن کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران اپنی فوجیں نہ بھیجنے کی وجہ سے سعودی عرب سمیت چند خلیجی ممالک پاکستان سے ناراض ہو گئے تھے جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا تھا ۔جس کے بعد ان اسلامی ممالک نے بھارت میں اربوں ڈالر زکی سرمایہ کاری کے ایم او یوز پر دستخط بھی کر دیئے تھے۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستیں برادر اسلامی ممالک کی حیثیت سے پاکستان کے بہترین دوست مانے اور جانے جاتے ہیں کیونکہ ہر مشکل گاڑ ی میں انہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا ۔سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں نے ہر موقع پر پاکستان کی مالی اور سفارتی اعتبار سے بڑھ چڑھ کر مدد کی ہے۔ 1998ء میں جب نواز حکومت کے دور میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا تو ان برادر اسلامی ممالک میں اتنی خوشی منائی گئی جیسے پاکستان نہیں وہ ایٹمی قوت بن چکے ہیں۔ اس ایٹمی دھماکہ کے بعد جب پاکستان پر پابندیوں کے باعث مالی مشکلات پیش آئیں تو سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں نے حسب روایت مالی امداد کی۔ ہم بچپن سے یہ نعرہ سنتے آئے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ بنے گا جنرل راحیل کے اس اتحاد کا سربراہ بننے کے بعد ہمارا یہ خواب اورنعرہ حقیقت بنتا نظر آ رہا ہے۔ ریاست پاکستان کو اس اتحاد سے ہر طرح کا فائدہ اٹھانے کے لئے جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ سفارتی کوششوں کے باعث عرب خطے میں بھارت کے اثرو رسوخ کو ناصرف کم کیا جائے بلکہ یہ کوشش بھی کی جائے کہ تمام عرب ممالک اور ریاستیں بھارت کی بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ پاکستان کو ایسا موقع شاید اس کے بعد پھر کبھی نہیں ملے گا لہٰذا تجویز ہے کہ حکومت اسلامی فوجی اتحاد کے حوالہ سے پاکستان کا ایک خصوصی ایلچی یا نمائندہ مقرر کرے جو ناصرف ایران سمیت دیگر ممالک جو کہ اس اتحاد کے حوالہ سے خدشات رکھتے ہیں انہیں ختم کرنے کے لئے ان ممالک کے دورے کرے بلکہ ان کو اس بات کی یقین دہانی بھی کروائی جائے کہ اس فوجی اتحاد سے ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ساتھ ہی اس اتحاد میں شامل ممالک خاص طور پر سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کو اس بات پر آمدہ کیا جائے کہ وہ دفاع سمیت پاکستان کے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کریں تا کہ ان کی دفاعی ضروریات پوری کی جا سکیں اور پاکستان میں ان کی سرمایہ کاری محفوظ تر ہو گی۔ سی پیک منصوبہ کے حوالہ سے بھی ان ممالک کو مکمل بریفنگ دی جائے تا کہ اتحاد میں شامل ممالک بھی سی پیک کا حصہ بنیں کیونکہ جتنے زیادہ ممالک سی پیک میں شمولیت اختیار کرتے جائیں گے یہ منصوبہ اہمیت اختیار کرتا جائے گا۔ بھارت میں کشمیر کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر بھارتی میڈیا میں بھی یہ بات چل نکلی ہے کہ شاید اب وقت آن پہنچا ہے کہ مسئلہ کشمیرکا کوئی ایسا حل نکال لیا جائے گا جس کو پاکستان ،بھارت اور کشمیری عوام بھی قبول کر لیں گے۔ پاکستان کو اسلامی اتحاد میں شامل ممالک کے ذریعے بھارت پر مزید دبائو ڈالناچاہیے تا کہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کو جلد ازجلد حل کرے۔ پاکستان کے برادر اسلامی ملک ترکی کے صدر طیب اردگان کا بھارت میں کشمیر کے مسئلہ میں ناصرف تشویش کا اظہار کرنا بلکہ ثالثی کی پیشکش کرنا پاکستان کی سفارتی کامیابی کہا جا سکتا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ موجود ہ حکومت کے ترکی کے ساتھ تعلقات کے سبب ترک صدر طیب اردگان نے نا صر ف پاکستان کو ترکی کا عظیم دوست کہا بلکہ بھارت پر زور دیا کہ وہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو ناصرف بند کرے اور اگر بھارت چاہیے تو ترکی ثالثی کے طور پر اپنا کردار اداکرسکتا ہے لیکن بھارت نے یہ پیشکش مسترد کر دی ہے اگرچہ بھارت فوری طور پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ بھارت کو جلد ہی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے جلد ہی مذاکرات کی میزپر آنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا کیونکہ اب مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہو چکا ہے ۔ہر آنے والے دن میں بھارت پر یہ بات عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ جس طریقہ سے اقوام عالم خاص طور پر اسلامی دنیا میں پاکستان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے تو اس کے ساتھ تمام حل طلب معاملات پر مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہوگا اور اس کی ایک بڑی مثال اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی ایک پاکستان جرنیل کے ہاتھوں میں آنا ہے ۔اب مسئلہ کشمیر کا تصفیہ طلب حل کے لئے بھارت کے پاس پاکستان کیساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔

.
تازہ ترین