• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز میری ملاقات ایک متکبر شخص سے ہوئی۔ یہ ایک دولت مند شخص تھا اور رعونت سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے تعلقات حکومت کے بڑوں سے ہر دور میں مستحکم رہے۔ یہ جب زمین پر چلتا تھا تو ایسے لگتا تھا کہ آسمان پر چل رہا ہو۔ یہ جب ان لوگوں سے بات کرتا تھا جو اس کے زیر نگیں تھے یا جو اسے کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تو اس کا خدائی لہجہ دیکھ کر دل کانپ اٹھتا تھا۔
گزشتہ روز اس سے میری ملاقات عجیب ماحول میں ہوئی۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ قبرستان میں سے گزر رہا تھا اور انسان کی بے ثباتی کے بارے میں بات کر رہا تھا کہ ایک قبر کے قریب سے گزرتے ہوئے کسی نے مجھے میرےنام سے پکارا۔ مجھے یہ آواز جانی پہچانی محسوس ہوئی۔ یہ اس متکبر شخص کی آواز تھی وہ کہہ رہا تھا ’’قاسمی صاحب خدا را ایک منٹ کے لئے رک جائیں‘‘۔
میں رک گیا اور پوچھا ’’تم کہاں ہو اور تمہیں میرے نام کا پتہ کیسے چلا؟‘‘
اس نے کہا ’’میں آپ کے پائوں کے نیچے قبر میں ہوں۔ میں نے آپ کو آپ کی آواز سے پہچانا ہے۔ آپ ایک دفعہ میرے دفتر آئے تھے۔‘‘
میں نے جواب دیا ’’ہاں مجھے یاد ہے اور میں تمہارا رویہ بھی نہیں بھولا۔‘‘
اس نے کہا ’’خدا کے لئے مجھے معاف کردیں۔ میں یہاں بہت تکلیف میں ہوں اور آپ کی مدد چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے پوچھا ’’میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘
اس نے کہا ’’اسلام آباد میں سیکرٹری انڈسٹریز ہیں ان سے میرے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ اگر کبھی اسلام آباد جائیں تو انہیں میراسلام کہیں۔‘‘
میں نے جواب دیا ’’کہہ دوں گا......!‘‘
بولا ’’ان سے کہیں کہ کسی سے کہہ سن کر مجھے عذاب قبر سے نجات دلا دیں۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’وہ بچارا اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہے؟‘‘
یہ متکبر شخص بولا ’’قاسمی صاحب آپ بہت بھولے ہیں۔ سب کچھ ہو سکتا ہے میں اس کے لئے خرچہ پانی دینے کے لئے بھی تیار ہوں!‘‘
میں نے کہا ’’لگتا ہے فرشتے تمہارے دماغ پر بھی ضربیں لگا رہے ہیں۔ تبھی تم ایسی الٹی سیدھی باتیں کر رہےہو۔‘‘
یہ سن کر اس کی آواز بھرا گئی اور وہ لجاجت سے بولا ’’قاسمی صاحب! آپ صرف ان تک میرا پیغام پہنچا دیں۔ اگر وہ نہ ملیںتو سیکرٹری پروڈکشن سے بات کریں۔ یہ دونوں بڑے اثر و رسوخ والے لوگ ہیں۔ میری زندگی میں انہوں نے کبھی میری بات نہیں ٹالی تھی اور میں نے کبھی ان کی کوئی فرمائش بھی رد نہیں کی تھی۔‘‘
میں نے سوچا یہ شخص ابھی تک پرانے خیالوں میں الجھا ہوا ہے۔ اسے یقین نہیں آ رہا کہ ایک دنیا ایسی بھی ہے جہاں نہ کوئی سفارش کا م آتی ہے اور نہ رشوت سے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں نے سوچا اسے انہی خیالوں میں مگن رہنے دو۔ مزید کچھ وقت گزرنے کے بعد اسے خود بخود عقل آ جائے گی۔ اس دوران مجھے ایک بار پھر اس کی آواز سنائی دی ’’قاسمی صاحب ! آپ کے بھی بڑے تعلقات ہیں۔ آپ ہی کچھ مہربانی کریں، میں ہر طرح کی خدمت کے لئے تیار ہوں، ادھر میرا کام ہو گا اور ادھر میرے بیٹے آپ کے پاس پہنچ جائیں گے اور جو حکم آپ دیں گے وہ اس کی تعمیل کریںگے۔‘‘
میں نے کہا ’’ تمہیں شاید علم نہیں کہ تمہارے بیٹے تمہیں اب صرف مٹی کا ڈھیر سمجھتےہیں جس کا ثبوت تمہاری قبر کی خستہ حالی ہے۔‘‘
اس کی آواز سے لگا جیسے یہ خبر اس کے لئے بہت صدمے کا باعث بنی ہے۔ اس نے کہا ’’میں نے تو زندگی میں جتنے ہیر پھیر کئے وہ سب انہی کے لئے کیے۔ کیا وہ واقعی مجھے بھول چکے ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’ہاں اور اب تمہاری ہی طرح خدا کی زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں اور انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوئے اپنے پائوں کے نیچے روندتے چلے جاتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر اس کی آواز میں مزید نقاہت پیداہوئی اور بولا ’’مجھے ان سے یہ امید نہیں تھی مگر قاسمی صاحب! مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی؟‘‘
میں نے پوچھا ’’وہ کیا؟‘‘
بولا ’’جب میرا انتقال ہوا تو مجھے قبر میں ایک فرشتے نے بتایا کہ تمہاری بخشش کے لئے ابھی تک دو ہزار مرتبہ پورا قرآن پڑھا جا چکا ہے۔ لاکھوں مرتبہ سورۃ یٰسین کی تلاوت کی جاچکی، تو مجھے اطمینان ہوا کہ اب مجھے عذاب سے نجات مل جائے گی مگر یہ سلسلہ تو ابھی تک جاری ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ دعائوں اور التجائوں سے حقوق اللہ کی معافی تو ہو سکتی ہے، حقوق العباد کی نہیں۔ تم نے دولت جمع کرنے کے لئے جتنے دو نمبر کام کیے اور ان کاموں کی زد میں ملک اور عوام کے جتنے طبقے یا افراد آئے وہ سب تمہارے خلاف استغاثے کے گواہ ہیں، کسی معاشرتی جرم کو تو کوئی فرد بھی معاف نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کیوں معاف کرے گا؟‘‘
اس پر مجھے قبر میں سے رونے کی آواز آئی بلکہ تھوڑی دیر بعد چیخیں بھی سنائی دیں، اس کے ساتھ شڑاپ شڑاپ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ غالباً عذاب قبر پر مامور فرشتے ہنٹر لے کر اس متکبر شخص کے پاس پہنچ چکے تھے۔ میرے دوست نے میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’اب یہاں سے کھسک لینا چاہئے۔‘‘
میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘
بولا ’’ہماری اپنی کرتوتیں کون سی اچھی ہیں لیکن دھیان کبھی ان کرتوتوں کے نتائج کی طرف نہیں گیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر سہم گیا ہوں اور خود تم بھی مجھے سہمے ہوئے لگتے ہو۔ چنانچہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس خوف سے ہم صاف ستھری زندگی گزارنا شروع کردیں اور عاقبت بہتر بناتے بناتے اپنی دنیا خراب کربیٹھیں۔ آگے چل کر جو ہوگا وہ اس وقت دیکھ لیں گے۔ اب تو آرام سے گزرتی ہے اور اسے اسی طرح گزرنے دو۔‘‘



.
تازہ ترین