• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو لوگ 1979میں نوجوان تھے اور ملکی سیاست کے ساتھ دلچسپی رکھتے تھے انہیں اُن دنوں اخبارات میں چھپنے والی ایک برطانوی نوجوان لڑکی کی تصویر شاید ابھی تک یاد ہو جو اسلام آباد سپریم کورٹ کے احاطے کے جنگلے کے ساتھ لگ کر زارو قطار رو رہی تھی۔ یہ 6فروری 1979کا منحوس دن تھا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ، پاکستان کو پہلا متفقہ جمہوری آئین دینے والے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹوموت کے خلاف نظر ثانی کی اپیل مسترد کر دی تھی اور ان کی سزائے مو ت کو 3-4کی اکثریت سے بحال رکھا تھا۔ اور وہ نوجوان برطانوی لڑکی وکٹوریہ شفیلڈ تھی جو یہ خبر سن کر سپریم کورٹ کے احاطے میں دھاڑیں مار کر رو رہی تھی ۔ وکٹوریہ شفیلڈ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کالج فیلو اور گہری دوست تھیں۔ جو ذوالفقار علی بھٹو کے لاہور ہائیکورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت مقدمہ قتل کے دوران ایک سال تک پاکستان میں مقیم رہیں اور انہوں نے بھٹو کے مقدمہ قتل اور پھانسی کے بارے میں ایک کتاب بھی تحریر کی ۔ اس موضوع پر لکھی جانے والی یہ پہلی کتاب تھی۔ پچھلے دنوں لاہور میں بے نظیر لٹریری فیسٹیول منعقد ہوا جس میں شریک ہونے کے لئے خصوصی طور پر برطانیہ سے وکٹوریہ شفیلڈ لاہور تشریف لائیں ۔ میرے گھر پر چند روز کا ان کاقیام بہت اچھا رہا۔ برطانیہ کی معروف جرنلسٹ ہونے کے باوجود وہ انتہائی سادہ اور ملنسار خاتون ہیں ۔ جنہوں نے میری اہلیّہ اور بچوں کے دل موہ لئے۔ وہ آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ ہیں جہاں سے میرے بیٹے محمد علی جان نے حال ہی میں پی ایچ ڈی کا فائنل امتحان دیا ہے جبکہ میرا چھوٹا بیٹا عمار علی جان کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے آخری سال میں ہے۔ وکٹوریہ کے ساتھ اس تعلّق کے علاوہ محترمہ بے نظیر کی ذاتی دوست ہونے کا تعلّق بھی ایک مشترکہ تعلّق ہے۔ وکٹوریہ آجکل فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل اور پھانسی کے علاوہ بھی انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں ان کی حالیہ شائع ہونے والی کتاب ’’ ویول‘‘ قابل ِ ذکر ہے جو ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ویول کے بارے میں ہے وکٹوریہ شفیلڈ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی ملاقات اکتوبر 1974میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ڈبیٹنگ سوسائٹی میں ہوئی ۔ جو بہت جلد گہری دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بے نظیر صاحبہ نے زمانہ طالب علمی کے دوران کئی مرتبہ انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی لیکن وہ کسی وجہ سے پاکستان نہ آسکیں۔ لیکن جب 5جولائی 1977کو جنرل ضیاالحق نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں نواب احمد خان کے قتل کے مقدمے میں ملّوث کر کے گرفتار کرلیا تو بھٹو خاندان پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس وقت 24برس کی نوجوان لڑکی تھیں۔ جبکہ ان کے باقی تینوں بہن بھائی اُن سے بھی چھوٹے تھے۔ اکیلی محترمہ نصرت بھٹو مارشل لا انتظامیہ کے مظالم کا سامنا بھی کر رہی تھیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال بھی۔ ابتلا کی اس گھڑی میں جب مارشل لاانتظامیہ بھٹو خاندان کے خون کی پیاسی ہو چکی تھی اور مقدمات کے علاوہ طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے انہیں ہراساں کیا جار ہا تھا۔ تو اُس وقت 23سالہ وکٹوریہ شفیلڈ نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ جو ان کی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ دوستی کی یکتا مثال ہے کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب بھٹو خاندان سے ہر دم ہمدردیاں جتانے والے بھی ایک ایک کر کے اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ اس وقت کو یاد کر تے ہوئے وکٹوریہ نے بتایا کہ اس کے ماں باپ نے بھی انہیں پاکستان جانے سے روکا تھا ۔ لیکن مس وکٹوریہ اس مشکل گھڑی میں ایک سال پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہیں۔ اس دوران جب مختلف مواقع پر فوجی انتظامیہ محترمہ کو گرفتار کر لیتی تو مس وکٹوریہ ان کے فیملی فرینڈز کے گھروں میں شفٹ ہو جاتیں۔ انہوں نے اُس دور کے کئی واقعات سنائے جن کی وہ خود چشم دید گواہ تھیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنی صفائی کے لئےپیش ہونے والے پاکستانی عوام کے محبوب لیڈر اور ریفارمر جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پہلی باردیکھا اور سنا اور وہ اُن سے بہت متاثر ہوئیں ۔ وہ بتاتی ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ نے جب 18مارچ 1978کو مسٹر بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کا فیصلہ سنایا تو ہر کوئی حیران و پریشان ہوگیا ۔ کیونکہ جن مفروضوں کی بنیاد پر مسٹر بھٹو کو احمد خان مقدمہ قتل میں بڑا مجرم ثابت کرکے سزائے موت دی گئی تھی۔ آزاد اور مہذب دنیا کی عدالتوں میں اس کا تصّور بھی محال ہے۔ لیکن انہیں ابھی تک یہ خوش فہمی تھی کہ سپریم کورٹ ان لا یعنی مفروضوں کو یکسر رد کر دے گی اور مسٹر بھٹو رہا ہو جائیں گے لیکن انہیں تیسری دنیا کے المیوں کی خبر نہ تھی۔ مارشل لا انتظامیہ ہر حال میں مسٹر بھٹو کو راستے سے ہٹانے پر تلی ہوئی تھی۔ اس لئے انہوں نے متوقع طور پر مسٹر بھٹو کی حمایت کرنے والے دو ججوں مسٹر جسٹس وحیدالدّین اور قیصر خان کو بیماری اور ریٹائرمنٹ کی آڑ میں سبکدوش کر دیا جو اگر بنچ پر موجود رہتے تو مسٹر بھٹو چا ر کے مقابلے میں پانچ ججوں کی اکثریتی رائے سے بری ہو سکتے تھے۔ جبکہ بقایا سات ججوں میں سے تین ججوں نے مسٹر بھٹو کو بیگناہ قرار دیکر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے باوجود اُس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر نے انہیں سزائے موت دے دی۔ حالانکہ ایسی صورتِ حال میں عموماََ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں سزائے موت کے حق میں فیصلہ دینے والے ایک جج مسٹر نسیم حسن شاہ نے خود بھی اعتراف کیا تھا کہ ان کا فیصلہ انصاف کی بجائے مارشل لاانتظامیہ کے دبائو کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے معروف قانون دانوں کی نظر میں یہ ایک ’’ عدالتی قتل‘‘ تھا جس کی مثال یا نظیر آج تک کسی مقدمہ قتل میں پیش نہیں کی گئی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ موت کی کال کوٹھری میں لکھی جانے والی مسٹر بھٹو کی کتاب ’’ اگرمجھے قتل کیا گیا‘‘ وکیلوں کے کاغذات اور نوٹس کے ہمراہ جیل سے باہر لائی جاتی رہی تھی۔ یہ وہی کتاب ہے جس میں مسٹر بھٹو نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے تمام متضاد طبقوں کے درمیان مصالحت کی جو کوشش کی تھی وہ اُن کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ صرف یہی نہیں یہ مذہب اور سیاست کے ملاپ کی بھی خوفناک مثال بن گئی ۔ جب مذہب کے نام پر بے تحاشا جھوٹ بولا گیا۔ پاکستان آج جس مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے ۔ اس کی بنیادیں بھی اس دور میں رکھی گئیں۔ جب مذہب کے نام پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو قانون کا درجہ دے دیا گیاتھا۔ اور وکٹوریہ شفیلڈ ہمارے اس دورِ ستم کی چشم دید گواہ ہیں۔



.
تازہ ترین