• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ ہوتے ہیں کتابی حقائق اور کچھ ہوتے ہیں زمینی حقائق۔ اکثر اوقات دونوں میں کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے اور بالآخر غلبہ حاصل ہوتا ہے زمینی حقائق کو کتابی حقائق پر۔۔۔ کچھ ہوتے ہیں خواب، آرزوئیں اور خواہشات اور کچھ ہوتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں۔۔۔ تعبیریں ہرگز یہ ثابت نہیں کرتیں کہ خواب غیر حقیقی اور خواہشات ہوائی قسم کی تھیں۔ حالات اپنے تقاضوں میں ڈھلتے رہتے ہیں اور زندگی ہمارے خوابوں کا انتظار نہیں کرتی۔ میں جب پس منظر میں سوچتا ہوں اور بحیثیت طالب علم اپنی تاریخ کو گہری نظر سے دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک کلیہ، ایک اصول تشکیل پانے لگتا ہے۔ یارو وہ اصول یہ ہے کہ جب ملک اور قوم اپنی بقا کے لئے مضبوط سیاسی نظام کو مضبوط انتظامی ڈھانچے کی بجائے مضبوط دفاع کی مرہون منت یا محتاج ہو جائیں تو ریاست سیکورٹی ریاست بن جاتی ہے اور اسے ایسا ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ تاریخ بتاتی ہے اور شہادت دیتی ہے کہ جب ایک بار ریاست سیکورٹی ریاست بن جائے تو اسے خالصتاً جمہوری عوامی ریاست بنانا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک وہاں ایک مضبوط اور بصیرت سے مالا مال نہایت مقبول قیادت طویل عرصے تک برسراقتدار نہ رہے۔ بھٹو میں ایسے جراثیم موجود تھے اس کا عرصہ حکمرانی مختصر کر دیا گیا۔ میاں صاحب بوجوہ اس مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس لئے انہیں جلا وطن کر دینا ہی کافی تھا۔ ان کی واپسی کا رسک لیا جا سکتا تھا۔ بھٹو کی واپسی کا رسک نہیں لیا جا سکتا تھا۔ میرے نہایت محترم اور پیارے وزیراعظم جب بھی حکمران بنے، ’’اپنی بالادستی اور جمہوری غلبے کی خواہش بمقابلہ عسکری قیادت‘‘ کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ پھر دہراتا ہوں ایک ہوتے ہیں خواب اور خواہشیں اور دوسری طرف ہوتی ہیں ان کی تعبیریں جنہیں زمینی حقائق شرمندئہ تعبیر نہیں ہونے دیتے۔ تین بار وزیراعظم بن کر انہیں حقائق سے سمجھوتہ کر کے اپنا مقام بنانا چاہئے تھا لیکن وہ نادان مشیروں کے زیر اثر شارٹ کٹ ڈھونڈھنے لگے۔ ان معاملات میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتے۔ نتیجہ انتشار، خلفشار اور جمہوریت کی کمزوری اور وزارت عظمیٰ کے ادارے کے وقار میں تھوڑی سی کمی۔۔۔! اس صورت حال کا ذمہ دار کون؟ ذمہ دار ہے بصیرت، معاملہ فہمی، ادراک اور حکمت عملی کی کمی۔۔۔؟
اور ہاں! یہ حکمرانوں کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے حزب مخالف کو ساتھ ملا کر گزشتہ دور میں صدر مملکت کو 58(2)Bسے محروم کر کے صدر کو اسمبلی اور حکومت برخاست کرنے کے اختیار سے محروم کر دیا تھا ورنہ عام طور پر اسٹیبلشمنٹ صدر مملکت پر دبائو ڈال کر حکومتیں بدلتی اور انتخابات کو خواہشات کے سانچے میں ڈھالتی رہی۔ اسی لئے عدالت 1990کے اننتخابات کو جعلی سمجھتی رہے لیکن اصغر خان کیس جو ان انتخابات کی جڑ تھا اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے کہ گندی سیاست کو عدالت کی لانڈری میں دھویا نہیں جا سکتا۔ یقین کیجئے اگر اب 58(2)Bموجود ہوتا تو شاید قوم پھر ایک بار بدلا ہوا اور تبدیل شدہ کاکڑ فارمولا اپنی آنکھوں سے ’’بیروئے کار‘‘ دیکھتی کہ حکومت پاناما کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے اور ڈان لیکس پر عسکری قیادت بڑا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں کیونکہ آرمی چیف پر ان کے حلقہ نیابت CONSTITUENCYکا دبائو ہے جسے وہ اگنور نہیں کر سکتے۔ میرے محبوب وزیراعظم ذرا سی ٹھوکر کھا کر سمجھتے ہیں ورنہ وہ اپنی دھن میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اب وہ سمجھے ہیں تو ان شاء اللہ کمپرومائز یا سمجھوتے اور قابل قبول حل کی صورت نکل آئے گی۔ وہ کمپرومائز کرنا اور دفاع کرنا جانتے ہیں لیکن حیرت ہے ایسا کون سا وزیراعظم ہو گا جس کے دفتر سے اس کی منظوری کے بغیر اتنے حساس معاملے پر نوٹیفکیشن جاری ہو جائے؟ وزیراعظم سیکرٹریٹ یا ہائوس میں وزیراعظم کی مرضی کے بغیر کاغذ حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ آخر کون اتنا طاقتور ہو گیا کہ وزیراعظم سے بالا بالا اہم فیصلے اور حساس نوٹی فیکشن جاری ہونے لگے؟ اسے وزیراعظم کی کمزوری سمجھا جائے یا ماتحت کا حد سے بڑھ اہوا اعتماد؟ وزیراعظم ایک ہی ہوتا ہے، دو وزیراعظم نہیں ہو سکتے ہم بی اے سیاسیات کی کتاب میں پڑھا کرتے تھے کہ دو درویش یا فقیر تو ایک پلنگ پر سو سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ یا وزیراعظم نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ طارق فاطمی اور رائو تحسین کے بعد کسی اور بابو کی بھی باری آئے گی شاید بھرم رکھنے کے لئے کچھ دیر بعد۔ لیکن اس بار یقیناً بہتر پوزیشن اور بڑا عہدہ اس کا منتظر ہو گا۔ میاں صاحب ذاتی وفاداری کا انعام ضرور دیتے ہیں۔ پاکستان میری محبت اور فوج میرا قلب و جگر ہے۔ 70سال گزرنے کے بعد پاکستان اپنی سیاسی و جغرافیائی بقا کے لئے عسکری قوت کا محتاج ہے نہ کہ صرف جمہوری قوت کا۔ یہ عمل چند برسوں میں نہیں بلکہ دہائیوں میں طے ہوا ہے۔ تاریخ سیمنٹ اور اینٹیں نہیں بناتیں بلکہ شخصیات بناتی ہیں۔ برادرم وجاہت مسعود کا قائداعظم کے فوجی و سول بیورو کریسی کو انتباہ اور کی گئی نصیحتیں یاد کرنا برمحل ہے لیکن ہم نے قائداعظم کے کس انتباہ اور راہنما اصولوں پر عمل کیا؟ قائداعظم نے بار بار صوبائیت، کرپشن، رشوت خوری و اقربا پروری، سفارش، ذخیرہ اندوزی و منافع خوری، مذہبی منافرت ، فضول خرچی اور قومی وسائل کے زیاں، حکمرانوں کی شان و شوکت اور عوام سے دوری، وغیرہ کے خلاف وارننگ دی اور بار بار قانون کی حکمرانی، انسانی مساوات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی و برداشت، سادگی، انصاف اور معاشی و سماجی عدل پہ زور دیا۔ یہی ان کے آئیڈیلز اور پاکستان کی منزل تھی۔ ہماری قیادتیں ان آئیڈیلزسے انحراف کر کے مصلحتوں اور منافقتوں، لوٹ مار اور شان و شوکت کی وادی میں کھو گئیں۔ ایسے ماحول میں صرف فوجی اور سول بیورو کریسی قائداعظم کے پند و نصائح پر عمل کیوں کرتی؟ ہوا میں قلعے تعمیر نہیں ہوتے۔ بدبو دار ماحول میں پھولوں کی خوشبو کی خواہش عبث۔ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا یار زندہ صحبت باقی مرشدی علامہ اقبال یاد آئے۔
کھول کر آنکھیں میرے آئینۂ تحریر میں
آنے والے دور کی ہلکی سی اک تصویر دیکھ



.
تازہ ترین