• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا پر ایک ٹوئٹ کے مطابق۔۔۔’’ ڈان لیکس پر نوٹی فکیشن ادھورا ہے اور انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ اسے مسترد کیا جاتا ہے ۔ ‘‘ زیر ِ بحث نوٹی فکیشن پر وزیر ِاعظم پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری نے دستخط کیے تھے ۔ اسے ایک میجر جنرل نے وزیر ِاعظم کے نامزد کردہ آرمی چیف کے حکم پر مسترد کردیا ۔ اس سے ایک مرتبہ پھر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ انتخابات، پارلیمنٹ اور آئین نہیں بلکہ بندوق کی بیرل ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قابل ِ اعتراض ’’نیشنل سیکورٹی لیکس‘‘ کا موضوع بھی یہی مسئلہ تھا کہ کیا پاکستان میں قومی مفاد کے اہم معاملات میں سویلین بااختیار ہیں یا فوج کا حکم چلتا ہے۔
یہ ایک انتہائی بدقسمت واقعہ ہے۔ وزیر ِاعظم صاحب پہلے ہی مقتدر ادارے کے کہنے پر دوقابل ِ اعتماد اور اہم رفقااور ایک سینئر سرکاری افسر کی قربانی دینے پر رضا مند ہوچکے تھے ۔ تو پھرایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کی اس طرح توہین کرنے کا کیا مقصد تھا؟تاہم یہ واقعہ صرف اس لئے ہی افسوس ناک نہیں کہ یہ ہمیں کچھ تلخ حقائق سے آشنا کرتا ہے ، یہ افسوس ناک اس لئے بھی ہے کہ اس نے طرفین کی جانب سے سول ملٹری تعلقات بہتر بنانے کے عمل کو سبو تاژ کردیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی فوجی قیادت نے بہتر تعلقات کی قائم ہونے والی فضا کو اس طرح مکدر کرنے کی اجازت کیوں دی؟
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تینوں مرکزی جنرل، چیف آف آرمی اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آرکے لئے موجودہ سیاسی ماحول سازگار نہیں ہے ۔ مختلف وجوہ کی بنا پر اُنہیں داخلی دبائو کاسامنا ہے کہ وہ نواز شریف کے خلاف ’’سخت موقف ‘‘ اختیار کریں۔ چیف آف آرمی اسٹاف کو اس منصب پر ترقی ملنے سے پہلے متنازع بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ڈی جی آئی ایس آئی پر بھی ناقدین حکمران خاندان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آرپر اپنے پیش رو کی فعالیت کا بوجھ ہے جو ایک سرگرم ’’ٹویٹ ماسٹر ‘‘ تھے ۔ اس ’’دفاعی جارحانہ پن ‘‘ کی تصدیق کورکمانڈروں کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ پاناما لیکس جے آئی ٹی میں شامل دونوں فوجی افسران ’’شفافیت اور غیرجانبداری ‘‘ کو یقینی بنائیں گے ۔
ایک بات یقینی ہے کہ پریشانی کی کچھ دیگر وجوہ بھی ہوں گی ۔ مثال کے طور پر’’شریف سوشل میڈیا محاذ ‘‘ کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ مخالف ٹویٹس پر تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر ِاعظم نے ممکنہ طور پر اعلیٰ فوجی قیادت کو سجن جندال کے حالیہ دورے کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا ۔ اس پر آئی ایس آئی میں سخت گیر موقف رکھنے والے افسران خوش نہیں ہوں گے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف نے منصب سنبھالنے پر بھارت کے ساتھ سرحدی تنائو میں کمی لانے کی بات کی تھی ، لیکن حالیہ دنوں سرحدی علاقوں کے دورے کے دوران اُنھوں نے غیر معمولی طورپر جارحانہ بیانات دئیے ۔
یہی وجہ ہے کہ فارن آفس میں اپنے ساتھیوں کے نام طارق فاطمی کا لکھا گیا الوداعی خط بہت کچھ کہہ رہا ہے ۔یہ خط اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے خود پر کیے گئے عدم اعتماداور لگائے گئے الزامات کو دوٹوک انداز میں مسترد کرتا ہے تو دوسری طرف دبے الفاظ میں فارن آفس میں اپنی کامیابیوںاور ایمانداری سے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی کاوش کا بھی ذکر کرتا ہے ۔ تاہم یہاں ایک مسئلہ ہے ۔ قومی مفاد کا تعین تو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے ، جبکہ فارن آفس پوری تندہی سے کھینچی گئی لکیر کی پیروی کرتا ہے ۔ بس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اب سویلینز خود بھی قومی مفاد کا تعین کرنے کی کوشش میں ہیں۔ چنانچہ فارن آفس ، جس میں مسٹر فاطمی جیسے آزاد سوچ رکھنے والے سفارت کار موجود ہیں، سابق دور کے برعکس آئی ایس آئی کی بجائے منتخب شدہ وزیر ِاعظم کو رپورٹ کرتا ہے ۔ یہ پیش رفت فارن آفس اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج کو گہرا کرنے کا باعث بنتی ہے۔
ڈان لیکس پراٹھنے والا شور اہمیت اختیار کرچکا ہے ۔ تاثر یہ جارہا ہے جیسے یہ ’’نیشنل سیکورٹی کے راز افشا ‘‘ کرنے کا کوئی معاملہ ہو، کیونکہ یہ قومی مفاد کا از سر نوتعین کرنے اور اس کی باگ ڈور سویلینز کے ہاتھ تھمانے کی طرف پہلا قدم ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایماندار سیاست دان، جیسا کہ سینیٹر پرویز رشید اور ایک آزاد سوچ رکھنے والے سفارت کار، جیسا کہ طارق فاطمی نے یہ ہر گز نہیں سوچا تھا کہ قومی مفاد کی پالیسی میں پائے جانے والے خلا کو پرکرنے کی کوشش کرنا اسٹیبلشمنٹ کی نگاہ میں اتنا بڑا جرم بن جائے گا جس کی سزا سے مفر ممکن نہیں۔ سجن جندال کی آمد پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا رد ِعمل کا فی سخت ہے ۔
اس دوران سویلینز کو اس واقعہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے اور اعتمادکا ماحول پیدا کرنے کے لئے کسی مناسب فورم اور میکانزم کی ضرورت ہے۔ جب تک باہمی اعتماد نہیں ہوگا، سول ملٹری تعلقات کبھی معمول کی سطح پر نہیں آئیں گے۔



.
تازہ ترین